(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا ۔ عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قراردیدی ۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ، چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجا ب ہیں ۔فیصلے میں کہا گیا کہ حمزہ شہباز نے بطور وزیر اعلیٰ جو تقرریاں کی وہ کالعدم کی جاتی ہیں ۔آج رات ساڑھے 11بجے تک پرویز الٰہی بطور وزیراعلیٰ حلف لیں ۔گورنر پنجاب میسر نہ ہوں تو صدر مملکت حلف لیں ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، فل کورٹ کیلئے خاص وجہ نہیں بتائی گئی، ہم نے سوال کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کس قانون کے تحت دی گئی ؟ صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیئے گئے، اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ کیس کی سماعت کی۔
ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے اور حکومتی بائیکاٹ سے متعلق بتایا کہ مجھے کہا گیا ہے عدالتی کارروائی کا مزید حصہ نہیں بنیں گے، ہم فل کورٹ درخواست مسترد کرنے کے حکم کیخلاف نظر ثانی دائر کرینگے۔
یہ کہہ کر عرفان قادر سپریم کورٹ سے واپس چلے گئے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے اور کہا کہ پی پی پی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں:ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس: سپریم کورٹ نے حکم نامہ جاری کر دیا
چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں، گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے مقدمہ میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کا کوئی ایشو نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کے سامنے 8 جج کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، جس کیس میں 8 ججز نے فیصلہ دیا وہ 17 رکنی بینچ تھا، آرٹیکل 63 سے فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس نے پرویز الہی کے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، دوسرا راستہ ہے کہ ہم بینچ سے الگ ہو جائیں، عدالتی بائیکاٹ کرنے والے گریس (شائستگی) کا مظاہرہ کریں، بائیکاٹ کردیا ہے تو عدالتی کارروائی کو سنیں۔
علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 21 ویں ترمیم کیخلاف درخواستیں 13/4 کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں، اس کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا تھا، ان کی رائے تھی کہ آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، ان کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی وکیل احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ فیصلے سے قبل کچھ باتیں سامنے رکھے، تین ماہ سے وزیر اعلی پنجاب کا معاملہ زیر بحث تھا، ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ میری گزارش ہوگی الیکشن سے قبل کا بھی سارا ریکارڈ دیکھا جائے، سپریم کورٹ تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریقین نے بعض عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا تھا۔ اس پر وکیل نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان پر کچھ گزارشات کرنا چاہوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش اچھی ہے لیکن ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح درست نہیں، فریق دفاع نے کہا 8 ججز کا فیصلہ پہلے موجود ہے تو فل کورٹ کو کیس سننا چاہیئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کا پیش ہونا لازمی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل ملک سے باہر ہیں ان کا انتظار نہیں کر سکتے۔
گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکمنامہ
ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔ تحریری حکمنامہ تین صفحات پر مشتمل ہے جس میں فیصلہ سنایا گیا کہ دوران سماعت فریقین کے وکلا نے فل کورٹ کے حوالے سے گزارشات کیں، ہم نے وکلا کو فل کورٹ کے حوالے سے گھنٹوں سنا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کیس میں صرف ایک ہی قانونی نکتہ شامل ہے، کہ آیا 63 ون بی کے تحت پارلیمانی سربراہ ہدایات جاری کر سکتا ہے یا پارٹی کا سربراہ، شجاعت حسین، پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کے وکلا نے پارٹی ہیڈ کے ہدایات جاری کرنے کے حق میں دلائل دیے۔
تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ کیس تفصیلی سننے کے بعد فل کورٹ بھجوانے کی حد تک استدعا مسترد کرتے ہیں، دوران سماعت فریقین کے وکلا نے گزارشات کے لیے مذید مہلت کی استدعا کی جسے منظور کیا۔