(ویب ڈیسک )ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ سے متعلق درخواست پر پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے اہم استدعا کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف پرویزالٰہی درخواستوں پرسماعت جاری ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔دوران سماعت پرویز الہیٰ کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کئے اور پی ٹی آئی وکیل امتیازصدیقی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایات بروقت آنی چاہئیں، ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ مجھے چوہدری شجاعت کا خط موصول ہوا جس پر چوہدری شجاعت حسین کے وکیل نے کہا کہ خط ارکان کو بھیجا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ووٹنگ سے پہلے خط پارلیمانی پارٹی اجلاس میں پڑھا گیا؟ سوال یہ ہے کہ خط پولنگ سے پہلے پارلیمنٹری پارٹی کےسامنےپڑھا گیا یا نہیں؟عدالت کےسامنے یہ سوال بھی ہےکہ فیصلےکو ٹھیک طریقے سےپڑھاگیایانہیں؟
اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دوسری سائیڈ سن تو رہی ہے مگروہ اس سماعت کا حصہ نہیں، اقوام متحدہ میں بھی غیر ممبران الگ نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔
سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس روسٹرم پر
سماعت میں ڈھائی بجے تک کا وقفہ کیا گیا، وقفے کے بعد دوبارہ آغاز پر سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس روسٹرم پرآئے اور انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ فیصلے سے قبل کچھ باتیں سامنے رکھے۔
سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس جو کہ تحریک انصاف کے پینل میں شامل ہیں اپنے دلائل میں بتایا کہ تین ماہ سے وزیراعلیٰ پنجاب کا معاملہ زیر بحث تھا، ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے؟ عدالت سے گزارش ہوگی کہ الیکشن سے قبل کا بھی سارا ریکارڈ دیکھا جائے اور سپریم کورٹ کو تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھے۔
بیرسٹر علی ظفر دوبارہ روسٹرم پر آ گئے
اہم ترین کیس کی سماعت کے دوران پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر ظفر دوبارہ روسٹرم پر آئے اور انہوں نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان پرکچھ گزارشات کرنا چاہوں گا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل63اےکےتحت منحرف ارکان کیخلاف ایکشن پارٹی سربراہ لےگا، پارٹی سربراہ منحرف ارکان کے خلاف ڈکلیریشن بھیجتا ہے جبکہ فریق دفاع کا کہنا ہے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کوکنٹرول کرتاہے،واضح کردوں کہ پارٹی سربراہ کا پارٹی پرکنٹرول کا کوئی سوال نہیں ہے۔
وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ پارٹی کے اندر تمام اختیارات سربراہ کے ہی ہوتے ہیں، پارٹی سربراہ کے اختیارات کم نہیں ہونے چاہیے،آرٹیکل 63 میں ارکان کو ہدایت دینا پارلیمانی پارٹی کا اختیار ہے۔