خدشات،ابہام،آپریشن عزم استحکام شرع ہونے سے پہلے متنازع ہوگیا؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)ملک میں بد امنی کی لہر سے نمٹنے کیلئے پاک فوج اور وفاقی حکومت کی جانب سے ویژن عزم استحکام کے نام سے ایک نئے آپریشن کا اعلان کیا گیا جس کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے کبھی آپریشن کی مزاحمت تو کبھی حمایت نظر آرہی ہے ۔علی امین گنڈا پور جو ایک طرف جیل میں بانی پی ٹی آئی سے آپریشن کے متعلق مشاورت کرنے گئے اور اِس کے بعد اُنہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اِس آپریشن پر کہا کہ ایپکس کمیٹی میں ایپکس کمیٹی میں آپریشن کا ذکر ہی نہیں تھا۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا آپریشن سے متعلق لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں اور دوسری جانب وہ ایپکس کمیٹی میں شریک ہوکر اِس اہم آپریشن پر بریفینگ بھی لیتے ہیں ۔اور اپنی صوبائی کابینہ کے اجلاس میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب ایک چیز کی اصل شکل ہمارے سامنے نہیں آئی تو ہم اِس کی مخالفت کیسے کریں ۔یعنی اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اندر ہی اندر وزیر اعلی خیبرپختونخوا آپریشن کے مخالف بھی نہیں ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایپکس کمیٹی کے اُس اجلاس میں بھی نظر آئے جہاں اِس آپریشن کا اعلان کیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور نے آپریشن سے متعلق کوئی اختلاف نہیں کیا ۔
اب علی امین گنڈا پور کا ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونے سے تو یہی مطلب نکلتا ہے کہ تحریک انصاف اِس آپریشن پر راضی ہے۔لیکن تحریک انصاف کے کچھ رہنما آپریشن کی مخالفت اور آپریشن کی نوعیت پر سوال اُٹھا رہے ہیں ۔اب تحریک انصاف یہ اندازے لگا رہی ہے کہ ملٹری آپریشن ہوگا ۔جیسے رد الفساد اور آپریشن ضرب عضب ہوئے جس میں نقل مکانی کی گئی ۔لیکن خواجہ آصف اِس بات کا جواب دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن ہوگا۔
اب جب وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے جب ویژن عزم استحکام کے نام سے مسلح شدت پسندی کے خلاف ایک نئے آپریشن کا اعلان کیا گیا تو حزب اختلاف سمیت خیبر پختونخوا کے قبائلی عمائدین نے بڑے پیمانے پر اس مخالفت کی جس کی ایک اہم وجہ اس مجوزہ کارروائی سے جڑے ابہام اور سوالات تھے۔
یہ واضح نہیں تھا کہ یہ کارروائی کہاں اور کیسے ہو گی جبکہ ساتھ ہی ساتھ یہ سوالات بھی موجود تھے کہ کسی بڑے پیمانے پر ہونے والی عسکری کارروائی کے اثرات کیا ہوں گے۔لیکن وزیر دفاع کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے کابینہ اجلاس میں بھی آپریشن کے حوالے سے وضاحت دی ۔ آج شہباز شریف کے زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے ویژن عزم استحکام کے حوالے سے گردش کرتی غلط فہمیوں اورقیاس آرائیوں کے حوالے سے ارکان کو اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ویژن عزم استحکام ایک کثیر جہتی، مختلف سیکورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے،اس مقصد کے لیے کسی نئے و منظم مسلح آپریشن کی بجائے پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں کو مزید تیز کیا جائے گا۔ بڑے پیمانے پر مسلح آپریشن جس کے نتیجے میں نقل مکانی کی ضرورت ہو۔ویژن عزم استحکام کے تحت ایسے کسی آپریشن کی شروعات محض غلط فہمی ہے۔ویژن عزم استحکام کا مقصد دہشتگردوں کی باقیات، جرائم و دہشتگرد گٹھ جوڑ اورملک میں پرتشدد انتہاپسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔لیکن کیا تحریک انصاف کی خیبرپختوںخوا میں صوبائی حکومت اِس مقصد میں حکومت کا ساتھ دے گی؟کیونکہ علی محمد خان تو واضح کرچکے ہیں کہ خیبرپختونخوا کی حکومت خیبرپختونخوا کی عوام کی منظوری کے بغیر کوئی آپریشن نہیں ہونے دے گی۔
دوسری جانب قومی اسمبلی پر بجٹ پر بحث جاری ہے۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں برف پگھلتی نظر آرہی ہے۔پیپلزپارٹی نے بجٹ پر ن لیگ کو سپورٹ کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے ۔اور یوسف رضا گیلانی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ سے ہماری صلح ہوگئی ہے۔
اب قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہےکہ جب پیپلز پارٹی نے حکومت کی حمایت کی تو ایک معاہدہ کیا جس کے تحت حکومت کو بجٹ اور پی ایس ڈی پی ہمارے ساتھ مل کر بنانا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا، مل کر بجٹ بناتے تو اچھا ہوتا۔یعنی بلاول بھی ہلکے پلے انداز میں گلے ن لیگ سے شکوے کرتے نظر آئے اور ساتھ ہی اُنہوں نے میثاق معیشت کی بھی بات کی اور کہا کہ اگر معیشت کو چلانا ہے تو پھر نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ۔
اب بلاول بھٹو وہی مطالبہ کر رہے ہیں جو بہت سے لیگی رہنما بھی کرتے نظر آئے ہیں ۔اب جہاں ن لیگ اور پیپلزپارٹی پھر سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے نظر آرہے ہیں تو وہیں پر تحریک انصاف مزاحمت کرتی نظر آرہی ہے۔آج قومی اسمبلی میں میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا علامتی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ فارم 45 کے تحت جیت کے دعویدار تمام امیدواروں کو اجلاس میں بلایا گیا۔اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی زیر صدارت اجلاس میں ریحانہ ڈار، سیمابیہ طاہر سمیت 172 اراکین شریک ہوئے۔تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر سخت احتجاج کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔سنی اتحاد کونسل کے اراکین اسمبلی نے اپنے امیدواروں کے ہمراہ تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔دیکھئے یہ ویڈیو