(24 نیوز)وفاقی حکومت کیلئے اِس وقت بڑے چیلنج میں سے ایک چیلنج معیشت کا ہے ۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ایک بڑا چیلنج ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ بھی ہے۔ جس میں گذشتہ چند سال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔پاکستان ڈیٹ ٹریپ یعنی قرضوں کے چنگل میں بہت عشروں سے پھنسا ہوا ہے لیکن حالیہ برسوں میں قرضوں میں ہونے والے اضافے اور پاکستان کی سکڑتی معیشت کی وجہ سے اب ان قرضوں کی واپسی اور ان پر سود کی ادائیگی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
ابھی حال ہی میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 25-2024 کا اقتصادی سروے پیش کیا تھا جس میں اقتصادی ملک پر مجموعی قرض کی تازہ صورتحال بتائی گئی تھی ۔جس کے مطابق اِس وقت ملک پر 67 ہزار 525 ارب روپے ہو گیا جس میں مقامی قرض 43 ہزار 432 ارب روپے ہے۔ ملک پر بیرونی قرض 24093 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ ہر شہری 2 لاکھ 80 ہزار روپے کا مقروض ہوگیا۔ ملک کا مجموعی قرض جی ڈی پی کا 74.8 فیصد ہے، ملک کے کُل بیرونی قرضے جی ڈی پی کا 28.6 فیصد ہیں۔ ملک کا مقامی قرضہ جی ڈی پی کا 46.2 فیصد ہے۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان آئے دن قرضوں کے چنگل میں پھنستا چلا جارہا ہے لیکن اِس قرضوں کو اُتارنے کا حل کیا ہے۔
ضرور پڑھیں:وفاقی وزیر خزانہ کا بجٹ میں اسٹیشنری آئٹمز پر ٹیکس نہ لگانے کا اعلان
اب حکومت تو عوام پر ٹیکسز کا بوجھ لاد کر قرض کی مد میں رقم وسول کرتی ہے اور مصطفیٰ کمال حکومت کی اِس پالیسی پر کڑی تنقید کرتے نظر آرہے ہیں ،مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ بجٹ کے ذریعے ہم عوام سے اُدھار اُتارنے کیلئے 78 ہزار 942 ارب کا قرضہ مانگنے جارہے ہیں جبکہ قرض اُتارنے کیلئے شروعات پارلیمنٹیرینز سے ہونی چاہئے ۔
اب مصطفیٰ کمال یہ تجویز دے رہے ہیں کہ اشرافیہ سے قرض اُتارنے کیلئے رقم موصول کی جائے ۔اب اِس تجویز پر عمل کیا جائے تو پاکستان کی اشرافیہ واقعی ملک کا قرضہ اُتار سکتی ہے لیکن یہ سب اشرافیہ کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔ویسے جو تجویز مصطفی کمال نے دی ہے وہی تجویز ایم ڈی آئی ایم ایف کرسٹالینا جارجیوا نے بھی دی تھی کہ پاکستان ایلیٹ کلاس سے ٹیکس وصول کرے اور غریبوں کو تحفظ دے ۔