لاہور: (ویب ڈیسک) پیٹرول کی قیمت دیکھ کر میں نے تو کان ہی پکڑ لیے۔ مگر کیا کریں، پیٹرول ڈلوانا تو مجبوری ہے۔ پیٹرول سے چلنے والی گاڑی اور موٹر سائیکل جو رکھی ہوئی ہے۔‘ لاہور کے رہائشی فرحان دران وہ واحد شخص نہیں جنھیں پیٹرول کی قیمتیں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے بلکہ قریب ہر پاکستانی ڈرا ہوا ہے کہ آج نہیں تو کل پیٹرول کی فی لیٹر قیمت ڈالر کی طرح 200 روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
جس کسی نے بھی روز دفتر جانا ہے، بچوں کو سکول سے پِک کرنا ہے یا گھر سے نکلنا ہے اسے معلوم ہے کہ پیٹرول ایک بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر گزارا ممکن نہیں۔ فرحان بتاتے ہیں کہ اسی خوف کو لیے اُن کی کمپنی کے باس، جو گاڑیوں کے شوقین ہیں، نے حال ہی میں پاکستان میں متعارف کرائی گئی ’سب سے سستی‘ الیکٹرک کار ’رینکو آریا‘ خریدی تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ کیا ملک میں الیکٹرک کار رکھنا کامیاب تجربہ ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر پیٹرول عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گیا تو یہ 24 لاکھ کی کار سب کی ضرورت بن جائے گی۔ ادھر زاہد پرویز کہتے ہیں جس قیمت پر یہ کار متعارف کرائی گئی ہے، قریب یہی قیمت اب پاکستان میں عام چھوٹی گاڑیوں کی ہے اور اس سے کم میں الیکٹرک کار خریدنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی بات کچھ حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ فی الحال پاکستان میں سب سے سستی الیکٹرک کار ’زیڈ ایس ای وی‘ ہے۔ یہ ایس یو وی قریب 70 لاکھ روپے کی ہے اور ’اوڈی ای ٹران‘ جیسی گاڑیوں کا ذکر تو رہنے ہی دیں، جو دو کروڑ روپے سے کم میں نہیں ملتیں۔
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے خریدار کم کیوں؟
ملک میں بظاہر الیکٹرک گاڑیوں میں دلچسپی تو بہت ہے مگر ان کے زیادہ خریدار نہیں۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے پروفیسر نوید ارشد نے پاکستان کی مناسبت سے الیکٹرک گاڑیوں پر کافی تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس صنعت کو سب سے پہلا چیلنج نئی ٹیکنالوجی سے ڈر کا ہے۔ ’سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ان الیکٹرک کاروں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے جو 50 فیصد تک اوپر ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی بیٹریاں مہنگی ہیں۔‘آپ کو پہلے پہل زیادہ قیمت ادا کرنا ہوتی ہے مگر تین سے چار سال کے استعمال (پیٹرول اور مینٹیننس کی بچت) سے یہ رقم پوری ہو جاتی ہے۔‘ ان کے مطابق یہ سوال بھی لوگوں کے ذہنوں میں رہتا ہے کہ ’میں اس کو لے تو لوں گا لیکن چارج کہاں سے کروں گا ؟ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گھر میں بجلی تو ہو گی نہیں۔’ اگر میں گھر کی جگہ فلیٹ میں رہتا ہوں تب چارج کہاں سے کروں گا۔ شہر سے باہر جانا ہے تو راستے میں چارجنگ کہاں ہو گی؟’نوید ارشد بتاتے ہیں کہ لوگ اس لیے بھی کتراتے ہیں کہ عام گاڑیوں کے تو مکینک ہر جگہ مل جاتے ہیں مگر ان گاڑیوں کے پارٹس اور مکینک کہاں ملیں گے۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ کب لوگ اس ٹیکنالوجی کو اپنا لیں گے۔ وہ اس لیے ماحول دوست ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے پُرامید ہیں کیونکہ ’پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی ایفیشنسی (کارکردگی) 20 سے 25 فیصد ہوتی ہے جبکہ الیکٹرک کاروں میں یہ 90 فیصد تک ہو سکتی ہے۔‘
پیٹرول والی گاڑی کے مقابلے الیکٹرک کار چلانا کتنا کم خرچ؟
کمپنی کے مطابق رینکو آریا کو گھر میں فُل چارج کرنے پر 400 سے 500 روپے تک کا خرچ آتا ہے جس کے بعد اسے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر 200 کلومیٹر تک کی رینج کے ساتھ چلایا جا سکتا ہے۔ بظاہر شہر کی ڈرائیو کے لیے قریب تین روپے فی کلومیٹر کی قیمت اتنی زیادہ نہیں۔ مگر پیٹرول والی کار کے کسی الیکٹرک گاڑیوں کے موازنے سے کچھ دلچسپ نتائج ملتے ہیں۔ نوید کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کئی ٹیسٹ کیے ہیں تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ پاکستان میں الیکٹرک کار چلانے پر فی کلومیٹر کتنا خرچ آتا ہے۔ ۔ہم نے رواں سال جنوری کے دوران ایک (دوسری) الیکٹرک کار پر تین طرح سے چارجنگ کی: فاسٹ چارجنگ (یعنی عوامی مقامات پر موجود الیکٹرک چارجنگ سٹیشنز)، گھریلو کنیکشن اور سولر۔‘ ان کی تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق فاسٹ چارجنگ پر الیکٹرک کار پر فی کلومیٹر خرچ ساڑھے سات روپے ہے جو پیٹرول پر چلنے والی گاڑی میں قریباً 10 سے 15 روپے بنتا ہے۔’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ گھر کی بجلی پر الیکٹرک کار کا فی کلومیٹر چار روپے خرچ ہے اور اگر میں سولر پر چارج کرتا ہوں تو اس پر فی کلومیٹر ڈیڑھ روپے پڑتا ہے۔ یہ سولر پر وہ اخراجات ہیں جو ان کی انسٹالیشن اور دس سالہ مینٹیننس پر آتے ہیں۔‘ خیال رہے کہ ان دونوں طرح کی چارجنگ میں وقت کچھ زیادہ لگتا ہے۔ تاہم خرچے کے اعتبار سے یہ فرق بہت اہم ہے۔ نوید کے مطابق اگر ملک میں الیکٹرک گاڑیاں عام ہو جاتی ہیں تو اس سے آئل امپورٹ بِل میں واضح فرق آ سکتا ہے۔ ’فی الحال پاکستان میں 40 فیصد بجلی ماحول دوست ذرائع یعنی پانی، سولر یا ونڈ کی مدد سے پیدا کی جاتی ہے اور اگر سال 2025 تک ہمارے ہائیڈرو منصوبے مکمل ہو جاتے ہیں تو یہ تناسب 60 فیصد تک جا سکتا ہے۔ تو بجلی کے ذرائع بتدریج گرین کیے جا سکتے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ اب دنیا میں ایسی الیکٹرک گاڑیاں آ چکی ہیں جن کی بیٹری کو یو پی ایس کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ’ان میں ٹو وے پاور فلو ہوتا ہے جنھیں لوڈ شیڈنگ کے دوران گھر کو بجلی فراہم کرنے کے لیے رکھا جا سکتا ہے۔‘
تو کیا رینکو آریا پاکستان میں چل سکے گی؟
یہ کار نجی شوروم پر کھڑی ہے جن کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں اور اس کی قیمت اور خصوصیات پوچھ کر اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے تو یہ کار بہت اچھی لگی ہے۔ موجودہ حالات میں ای ویز کی ڈیمانڈ بڑھی ہے۔‘ جبکہ فرحان درانی کہتے ہیں کہ پیٹرول اور موبل آئل کی بچت کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر صارفین اپنا بجٹ بڑھا لیں تو اسے خریدنے سے انھیں کافی فائدہ ہو گا۔ وہ اس کار کی کوالٹی سے مطمئن ہیں۔ دوسری طرف الیکٹرک گاڑیوں کے ماہر نوید ارشد کی رائے میں رینکو آریا چلانے میں اچھی ہے لیکن پاکستان کی مارکیٹ میں اسے کچھ چیلنجز درپیش ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’چھوٹی گاڑیاں چونکہ ہلکی ہوتی ہیں تو شہر میں ان کی ایفیشنسی بہتر ہوتی ہے‘ لیکن رینکو آریا صرف اسی صورت پاکستان میں کامیاب ہو سکے گی اگر اس کے پارٹس وغیرہ کی دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ جب انھوں نے یہ کار کراچی میں چلائی تو انھیں محسوس ہوا کہ اس کا اے سی اتنا متاثر کن نہیں۔ ’جو شخص 24 لاکھ کی کار لے رہا ہے وہ اس کی ڈرائیو میں سکون چاہے گا اور 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں اچھے اے سی کے بغیر تو وہ 24 لاکھ خرچ نہیں کرے گا۔ چاہے اس کی رینج کچھ کم ہو جائے لیکن اے سی کی کارکردگی پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔‘
الیکٹرک گاڑیوں کے انقلاب سے ہم کتنا دور ہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ بظاہر یہ کار ایسے ماحول کے لیے بنی ہے جہاں کی سڑکیں بہت اچھی ہے۔ خراب سڑکوں پر اس کی ڈرائیو اور سسپنشن کیسی ہو گی، اس بارے میں وہ زیادہ پُراعتماد نہیں۔ اس کار کو شوروم پر دیکھنے آئے رضوان اعجاز نے بلا جھجھک کہا کہ وہ ان حالات میں ایسا رسک لینا پسند نہیں کریں گے مگر ہاں اگر اس کی قیمت کچھ کم ہوتی تو اس بارے میں سوچا جا سکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’اسے راستے میں تو چارج نہیں کیا جا سکتا اور ابھی لوگوں میں اتنی آگاہی بھی نہیں۔ جب لوگ اسے سڑکوں میں چلتا دیکھیں گے تبھی اس پر پیسے خرچ کرنے پر راضی ہوں گے۔‘ الیکٹرک گاڑیوں کی ری سیل ویلیو یعنی استعمال شدہ کار کی قدر کے حوالے سے نوید کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اس کا انحصار رینج پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے قریب ہر استعمال شدہ کار اپنی ابتدائی قیمت سے زیادہ میں فروخت ہو جاتی ہے۔ تاہم ’الیکٹرک کار کی ری سیل ویلیو خود بخود اوپر جاتی ہے اگر اس کی رینج 400 کلومیٹر سے زیادہ ہو۔‘’بڑی الیکٹرک کار کی رینج 400 کلومیٹر سے زیادہ ہو تو آپ ایک شہر سے دوسرے شہر باآسانی جا سکتے ہیں۔۔۔ جبکہ چھوٹی کاروں میں (ری سیل ویلیو کے لیے) اس کی خصوصیات اور آفٹر سیلز سروس بہتر ہونی چاہییں۔‘
ابھی کچھ وقت لگے گا‘
یہ سوال بھی اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کو عام ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ اس پر نوید بتاتے ہیں کہ ’ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم انتظار کریں کہ دنیا بھر میں الیکٹرک کاروں کی قیمتیں کب دوسری کاروں کے ساتھ برابر ہو جاتی ہیں۔‘ ’اس میں چار سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ جب ہر کوئی انھیں اپنا لے گا تو ہم بھی اپنا لیں گے۔‘ ان کے مطابق دوسرا راستہ یہ ہے کہ ’پاکستان میں ہم لوگوں کو جلد یہ سمجھا دیں کہ اس گاڑی کے معاشی فائدے بہت زیادہ ہیں۔‘اس بنیاد پر تو یہ گاڑیاں کبھی مشہور نہیں ہوں گی کہ یہ ماحول کو صاف کرتی ہیں۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی یہ ترجیح نہیں۔ اس میں دلچسپی تبھی لی جائے گی اگر لوگوں کو پتا چلے گا کہ اس سے ان کے پیسے بچیں گے۔‘ نوید بتاتے ہیں کہ حکومتی سطح پر ایسی سکیمز ہونی چاہیے، جیسے انگلینڈ میں ایک کمپنی نے گاڑیوں کی فروخت پر اس کی بیٹری آسان اقساط میں دیں تاکہ لوگ جو پیسے پیٹرول پر بچائیں وہ قسط کی مد میں ادا کر سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں بنانا زیادہ آسان ہو گا کیونکہ اس میں موونگ پارٹس 30 کے قریب ہیں اور دوسری کاروں میں یہ 200 یا اس سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ’پیچیدگی اس کے سافٹ ویئر، بیٹریوں اور موٹر کنٹرول یونٹس میں ہے‘ کیونکہ یہی اس کا انجن ہے۔ دوسری طرف رضوان اعجاز کہتے ہیں کہ انھیں عام ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ ’جب کوئی ایک سال بعد اس الیکٹرک کار کو اپنے کسی دوست کے پاس دیکھے گا اور اس کی کارکردگی سے متاثر ہوگا تبھی اسے خریدے گا۔‘ ’اس میں چھ ماہ، ایک سال یا اس سے زیادہ وقت لگے گا۔