(24 نیوز) سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی۔
سپری کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی حکومتی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں، اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز کے عدالتی حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ جس پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے گزشتہ روز کی صورتحال پر وضاحت مانگ لی۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے موقف اختیار کیا کہ عدالتی حکم کے بعد عمران خان نے کارکنوں کو پیغام جاری کیا، عمران خان نے کہا سپریم کورٹ نے اجازت دے دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ممکن ہے عمران خان کو پیغام درست نہ پہنچا ہو۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان نے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی، اگرعدالت اجازت دے تو عمران خان کی ویڈیو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ عدالت میں عمران خان کی کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کے پیغام کی ویڈیو چلائی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اس بیان کے بعد کیا ہوا، یہ بتائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے الیکشن کے اعلان کیلئے حکومت کو 6 روز کا الٹی میٹم دے دیا
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئین پاکستان شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے، ایگزیکٹو کے پاس اختیار ہے کہ پاور کا استعمال کر کے عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے، لیکن ایگزیکٹو کو غیر قانونی طور پر گرفتاریاں بھی نہیں کرنی چاہئیں، جن کیخلاف ایف آئی آر ہوئیں ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے، سپریم کورٹ آئین پاکستان پر عملدرآمد کی پابند ہے، ہم عدالت میں کسی پر الزام لگانے کے لیے نہیں بیٹھے، سپریم کورٹ آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے، اٹارنی جنرل آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے احکامات پر عمل نہیں کیا گیا، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ لوگ زخمی ہوئے، اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایکشن لیا، ہم آئین کے محافظ اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے والے ہیں، پاکستان آئین کے آرٹیکل 16 اور 17 کے تحت حقوق حاصل ہیں لیکن وہ لامحدود نہیں ہیں، گزشتہ روز عدالت نے جو آڈر جاری کیا تھا وہ متوازن تھا۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان 6 لاکھ لوگ اسلام آباد لے آئیں تو الیکشن کی تاریخ دے دیں گے: رانا ثناء کی بڑی پیشکش
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل عدالت نے شہریوں کے تحفظ کی کوشش احتجاج سے پہلے کی، عمومی طور پر عدالتی کارروائی واقعہ ہونے کے بعد ہوتی ہے، عدالت نے خود ثالت بننے کی ذمہ داری لی، پی ٹی آئی کو بھی حکومت پر کئی تحفظات ہوں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی۔ اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو کچھ کل ہوا ہے وہ آج ختم ہوچکا ہے، عدالت انتظآمیہ کے اختیارات استعمال نہیں کرتی، عوام کے تحفظ کے لیے عدالت ہر وقت دستیاب ہے، عدالت نے عوام کے مفاد کے لیے چھاپے مارنے سے روکا تھا، عدالت چھاپے مارنے کے خلاف اپنا حکم برقرار رکھے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو کچھ گزشتہ روز کیا گیا اس پر بعد میں آئیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے تحریک انصاف کے جلسوں کو تحفظ فراہم کیا تھا، فائر بریگیڈ اور بکتر بند گاڑیوں کو آگ لگائی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ توقع ہے تحریک انصاف کو اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہوگا، کل سڑک پر صرف کارکن تھے لیڈر نہیں، آگ آنسو گیس سے بچنے کیلئے لگائی گئی تھی، کارکنوں کو قیادت ہی روک سکتی ہے جو موجود ہی نہیں تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کو بغیر قیادت ہی گھروں سے نکلنے کی کال دی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ وکلا عمران خان سے رابطہ کرسکتے تھے یا نہیں، عدالت نے فریقین میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، عدالت کی اس کوشش کو دھچکا لگا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب حکومت قانون کے مطابق اپنا کام کرے، کل ہماری ٹی وی لائنز بھی بند کر دی گئی تھیں، حکومت عدالتی احکامات کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آج ڈی چوک سے کچھ پہلے عمران خان نے تقریر کی، عمران خان نے دھرنا دینے کے بجائے حکومت کو 6 دن کی ڈیڈ لائن دی، عمران خان نے کارکنوں کو واپس جانے کا نہیں کہا، کروڑوں روپے کی سرکاری اراضی کو تباہ کیا گیا، کاروائی نہ ہوئی تو کل کوئی عدالتی یقین دہانی پر عمل نہیں کریگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ املاک کا نقصان نہیں ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ امریکہ میں بھی صدارتی الیکشن میں ایسا واقعہ ہوا تھا، کل عام لوگ نکلے ہوئے تھے جنھوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، عدالت کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے، حکومت اور تحریک انصاف کو عدالت کی اخلاقی سپورٹ چاہئے تو باہمی اعتماد قائم کریں، سیاسی کشیدگی سے ہمیشہ ملک کا نقصان ہوتا ہے، عدالت ٹھوس وجہ ہونے پر ہی کسی سیاسی معاملہ میں مداخلت کرے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کر کے سیاسی جماعتوں نے ہمارا اعتبار توڑا ہے، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہے ابھی کوئی حکم جاری کرنا مناسب نہیں ہوگا، اس کیس کو مزید نہیں چلاتے، درخواستوں میں جو باتیں کی گئیں ان کا مقصد پورا ہوگیا، پاکستان مظاہرین نے جو کچھ کیا غلط کیا مگر کسی کے کہنے پر نہیں ہوا، سپریم کورٹ مستقبل کیلئے ایک لائحہ عمل بنائے گی، ایک ضابطہ قائم کریں گے جو سب کیلئے مثال ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا سڑکیں کھول دی گئیں؟ کیا ایف آئی آرز کے بغیر لوگوں کو رہا کر دیا گیا ہے؟ کیا حکومت جلسے کیلئے گراونڈ دینے پر تیار ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سڑکیں کچھ حد تک کھل گئی ہیں، ہم تو تیار تھے مگر جلسہ گاہ میں وہ خود نہیں آئے۔ عدالت نے توہین عدالت سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی درخواست نمٹا دی۔