آڈیو لیک تحقیقاتی کمیشن: لارجربینچ نےعمران خان ودیگرکی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجربینچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے3 رکنی جوڈیشل کمیشن کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور دیگرکی درخواستوں پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔
سپریم کورٹ میں آڈیو لیک کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ آڈیو کمیشن کیخلاف سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس منیب اختر شامل، جسٹس شاہد وحید جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
عمران خان کی طرف سے ڈاکٹر بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری اور سیکریٹری بار مقتدر اختر شطیر پیش، درخواست گزار ریاض حنیف راہی اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بابر اعوان نظر آرہے تھے۔
اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے، انہوں نے پانچ رکنی لارجر بنچ پر اعتراض اٹھا دیا جس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہوگیا ہے اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی، ہم نے سوال پوچھا کہ 184 (بی) میں لکھا ہے کم از کم 5 ججز کا بینچ ہو، اگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بتاتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعے کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کیخلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہوگئی، حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا، 9 مئی کے سانحے کے بعد عدلیہ کیخلاف بیان بازی بند ہوگئی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کہ قانون سازی جلدی میں کی۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے چیف جسٹس کے بنچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھا دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہت ادب سے استدعا ہے کہ لارجر بنچ یہ کیس نہ سنے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اعتراض کرنا آپ کا حق ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ،آڈیو لیکس تحقیقات کمیشن کیخلاف درخواستوں پرلارجر بنچ تشکیل
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے دلائل دینا شروع کردیے، انہوں نے سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حاضر سروس جج کو کمیشن میں تعینات کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ کسی پرائیویٹ شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے کیونکہ اس نے جوڈیشل کاروائی کرنی ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملے کی وضاحت دی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے، انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود ججز تجویز کیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس سے پہلے تین نوٹیفیکیشن میں حکومت نے ججز تجویز کیے جنہیں بعد میں واپس لیا گیا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ 2017ء کو چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 1956ء ایکٹ آئین کے احترام کی بات کرتا ہے، اس نکتے پر بعد میں آئیں گے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس نکتے پر ابھی تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: آڈیو لیکس،تحقیقاتی کمیشن نے کام کا آغاز کردیا
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کو گزارش ہے کہ آئین کا احترام کریں، آئین کا احترام کرتے ہوئے روایات کے مطابق عمل کریں، معذرت سے کہتا ہوں کہ حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال اٹھایا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں نہیں لکھا کہ فون ٹیپنگ کس نے کی؟ فون ٹیپنگ ایک غیر آئینی عمل ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کیخلاف دائر درخواست 26 مئی کو سماعت کیلئے مقرر کی تھی۔