19 مئی کو ہیلی کاپٹر کے پراسرار حادثے میں صدر ابراہیم رئیسی کی ناگہانی موت نے ایران کے ریاستی ڈھانچہ کے اندر جاری اقتدار کی کشمکش کو پیچیدہ بنا دیا،اس سانحہ کی اصل وجوہات جاننے اور ایران کی سیاست پر اس کے قریبی و طویل المدتی اثرات بارے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔اگرچہ صرف وقت ہی بتائے گا کہ حقیقت کیا تھی تاہم ظاہری طور پہ مختلف عوامل ہیلی کاپٹر حادثے کا سبب ہو سکتے ہیں،جن میں خراب موسم، مکینیکل خرابی یا بیرونی عنصر کی تخریب کاری جیسے عوامل شامل ہیں، ملکی اور غیر ملکی عناصر کی طرف سے تخریب کاری، غلط کھیل یا ممکنہ طور پہ گھریلو اداکاروں کی تلویث کو بھی ردّ نہیں کیا جا سکتا۔امر واقعہ یہ ہے کہ موساد کے ایران کے اندر کامیاب اور متحرک مہمات کا ٹریک ریکارڈ تو موجود ہے، جس میں جاسوسی، ٹارگٹڈ کلنگ، تخریب کاری، ڈرون اور سائبر حملے شامل ہیں لیکن رئیسی اور امیر عبد اللہیان کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا امکان کم ہے، تاریخی طور پر موساد نے شاذ و نادر ہی ایران کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا کیونکہ رئیسی جیسے شخص کو ہدف بنانے میں اسرائیل کے لیے بہت کم تزویراتی مفاد تھا، جس کی وجہ سے ایسی کارروائی کے لیے کوئی معقول وضاحت تلاش کرنا مشکل ہو گا ۔موجودہ منظر نامہ میں،ریاستی ڈھانچے کے اندر سے تخریب کاری قرین قیاس ہے۔
خاص کر خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ کے دھڑے کی طرف انگلی ضرور اٹھے گی جو قیادت کے سنجیدہ دعویدار ہیں، اس کے علاوہ پاسداران انقلاب سے تعلقات رکھنے والے پارلیمنٹ کے سخت گیر اسپیکر محمد باقر غالب کے قریبی عناصر یا وہ لوگ جو ہاوسنگ اور ٹرانسپورٹیشن کے وزیر مہرداد بازرپاش سے منسلک ہیں، جو صدر کے قافلہ میں شامل دوسرے ہیلی کاپٹر میں سوار تھے اور بحفاظت واپس لوٹ آئے،شکوک و شبہات کی زد میں ہیں۔لیکن اس وقت ایرانی مقتدرہ کا اصل مخمصہ یہ ہے کہ رئیسی، سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے ممکنہ جانشین اور اس عہدے کے لیے مجتبیٰ کے زبردست حریف تھے ،چنانچہ رئیسی اور امیر عبداللہ کی اچانک موت نے سیاسی ڈھانچے کے اندر طاقت کا ایسا خلا پیدا کر دیا جس نے حصول اقتدار کی جنگ کو مزید گنجلک بنا دیا لیکن اس سب کے باوجود، اس خلا میں داخلی یا خارجہ پالیسیوں کے متاثر ہونے کا امکان نہیں کیونکہ ایران میں حتمی اختیار رکھنے والے سپریم لیڈر موجود ہیں۔ خامنہ ای سیاسی طاقت کے بدعنوان اور ایسے اقربا پرور ڈھانچے پہ بیٹھے ہیں جو رئیسی یا دیگر عہدیداروں کی عدم موجودگی سے نہیں بلکہ خود 85 سالہ سپریم لیڈر کی موت سے گر سکتا ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ رئیسی کی موت کا ایرانی سیاست پر کوئی معنی خیز اثر نہیں پڑا۔اس واقعہ کے دو فوری اور طویل المدتی اثرات ہو سکتے ہیں،قریبی المدت اثرات میں، ملک غیر متوقع طور پر سپریم لیڈر کے جانشین سے محروم ہو گیا۔
اگرچہ اس بات کا فوری امکان نہیں کہ مخالفین موقع سے فائدہ اٹھا کر ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج برپا کر دیں گے لیکن یہ ناممکن بھی نہیں۔اس سانحہ کے طویل مدتی اثرات کے حوالے سے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ واقعہ بنیادی طور پر حکومت کے لئے نفسیاتی اور اخلاقی دھچکا ثابت ہوا، خاص طور پہ موجودہ رجیم تئیں ایسی مایوسی کو گہرا کر گیا،جو خواتین پر جبر اور قوم کے اذہان کو اپنی گرفت میں لینے والے سماجی، سیاسی اور معاشی جمود کو دور کرنے میں ناکامی سے پیدا ہونے والے عوامی غیض و غضب سے پیدا ہو رہی تھی ۔ بلاشبہ قانونی حیثیت کا فقدان بھی ریاست کے زوال کی علامات میں سے اہم عنصر ہے، جو مذہبی ریاست کی کمزوری بن گیا ، یہی عدم جواز بتدریج آمرانہ ریاستی اتھارٹی کو کمزور کرتا رہے گا۔ہیلی کاپٹر حادثے کا طویل المدتی اثر خامنہ ای کے بعد جانشینی کے بحران کی صورت میں نمودار ہو گا۔بظاہر یہی لگتا ہے رئیسی کے منظر سے ہٹنے کے بعد مجتبیٰ کے اقتدارکی راہ ہموار ہو گئی لیکن اس کے باوجود،مجتبیٰ کا اقتدار پر قبضہ آسان نہیں ہو گا۔ رئیسی کی موت ان کے لئے دو دھاری تلوار ثابت ہو گی، ایک طرف، یہ اگر کاغذ پر، اسے سپریم لیڈر کا عہدہ سنبھالنے کا آسان راستہ دے گی تو دوسری طرف، رئیسی کی عدم موجودگی اسٹیبلشمنٹ کے اندر مختلف حریف اداکاروں کے درمیان جاری اقتدار کی کشمکش کو بھڑکا کر اعلیٰ عہدوں کے خوگر یا سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کے اندر موجود عناصر کے درمیان طاقت کے حصول کی جنگ کو تیز کر دے گی۔
یہی تلخ لڑائی خامنہ ای کے لیے خطرناک اور اسکی طاقت کے اس کلیپٹوکریٹک ڈھانچے کو جو وہ ایران میں منظم کرنے میں کامیاب رہے،کے انہدام کا وسیلہ بنے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سوویت یونین میں لینن اور سٹالن کی موت کے بعد ابھرنے والی افراتفری کی طرح خامنہ ای کے بعد ایران میں پُرامن طریقہ سے اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ بنے گی ۔گویا رئیسی کی موت اپنی ٹائمنگ کے لحاظ سے ایرانی قیادت کے لئے 45 سالوں میں سب سے بڑے چیلنج کے طور پہ سامنے آئی کیونکہ رئیسی کی بدولت خامنہ ای اپنی موت کے بعد منظم اقتدار کی منتقلی کےلئے بہترین حالات بنانے کے منصوبوں پر غور کر رہے تھے، اب حکومت کو یکے بعد دیگرے دو بحرانوں کا سامنا ہے۔ابتدائی بحران کا نتیجہ بعد کے بحران کا تعین کرے گا، ان دونوں بحرانوں کے درمیان خطرات کے متعدد مراحل اور غیر متوقع واقعات کے سلاسل موجود ہیں جو کسی بھی وقت ہنگامی طور پہ رونما ہو سکتے ہیں۔خامنہ ای کا سب سے بڑا چیلنج قوم کا اعتماد جیتنا ہے۔ سابق صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بارے میں سوشل میڈیا پر دس میں سے تقریباً نو تبصرے خامنہ ای یا ان کے سیاسی نظام کو سانحہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، دوسرا، سیاسی کھلاڑیوں کو، بشمول ان کے فرمانبردار حامیوں کو یقین دلانا، کہ وہ ان کی فلاح و بہبود اور تعاون کی قدر کرتے ہیں۔
ضرورپڑھیں:ورلڈ کپ کیلئے ٹیم کا اعلان ہوگیا، مگر ! جیتنا ہے تو کیا کرنا ہوگا ؟
اسی طرح صدر رئیسی کی موت نے مذہبی اتھارٹی کی اندرونی کمزوریوں کو طشت از بام کر دیا، واقعہ کے کئی گھنٹے بعد بھی حکومت حادثے کی جگہ کا پتہ نہ لگا سکی۔ خامنہ ای حکومت کے پاس خبروں کی ترسیل اور گیٹ کیپنگ میکانزم کا فقدان نظر آیا، اس لئے حادثہ بارے خبروں کے پھیلاو میں افراتفری نے حکومت کے اندرونی لوگوں کو تڑپا دیا۔اس واقعے کے بعد حکومت کا واحد ردعمل میڈیا کو ان ممکنہ وجوہات اور منظرناموں کا تجزیہ کرنے سے روکنا رہا، جنہوں نے ملک کے صدر، وزیر خارجہ اور کئی دیگر اہلکاروں کی موت میں اہم کردار ادا کیا ۔ یہاں تک کہ جب قوم سابق صدر کی قسمت بارے خبروں کا انتظار کر رہی تھی، تہران میں بندوق بردار نے دو کرنل سمیت تین پولیس افسران کو ہلاک کر دیا ۔سیکورٹی خدشات کا ایک اور اشارہ تہران میں یہ افواہ تھی کہ پولیس چیف جنرل رادان کو قتل کر دیا گیا۔لاریب، استبدادی حکومتوں میں جانشینی کے انتخاب جیسے میکانزم کی عدم موجودگی میں کوئی بھی اقتدار کی پُرامن منتقلی یقین نہیں بنا سکتا۔خمینی کے بیٹے کی مشتبہ موت، جو ایران کے پہلے سپریم لیڈر کی جانشینی کا اصولی دعویدار تھا، واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ رہبر کے مرنے کے بعد اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ان کے بیٹے کی دیکھ بھال وہ لوگ کریں گے جو اس سے پہلے ان کے وفادار تھے۔ادھر سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ عوام کو پہلے سے معلوم ہے کہ صدر کون منتخب ہو گا شاید اسی وجہ سے انتخابات میں عوام کی پُرجوش شمولیت کا امکان نہیں، دوسرا مقابلہ کرنے والوں کے درمیان پہلے سے موجود شدید دشمنی بھی قوم کو خوفزدہ کر رہی ہے۔ سابق صدر احمدی نژاد اور مجلس کے سابق اسپیکر لاریجانی جیسے سخت گیر دعویدار، مہرداد بازرپاش، پر رئیسی کو ختم کرنے کی سازش میں ممکنہ طور پر ملوث ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔اگرچہ رئیسی ایران کا مختیار کل نہیں تھا لیکن وہ حکومت کی انتظامی اتھارٹی کی بربریت کا علامت ضرور تھا ، ان کا انتقال ایران کی بزرگ قیادت کے لیے جانشینی کے بڑھتے ہوئے تنازعہ کی ازسرنو تشکیل کرے گا ۔
بلاشبہ تہران نے 1979 کے انقلاب کے بعد سے یادگار چیلنجوں کا سامنا کیا، جن میں ایسے بھی تھے جنہوں نے حکومت پر بڑے پیمانے پر اثر ڈالا لیکن انہیں ختم یا مستقل طور پر کمزور کرنے میں ناکام رہے بلکہ یہی عوامل قیادت کے عزم کو بلند تر کرتے رہے۔لیکن موجودہ منظر نامہ ایک ایسی حکومت کے لیے حقیقی خطرات کا باعث ہے جس نے اپنی اصل انقلابی نسل سے اپنے غیر متاثر کن وارثوں کی طرف نظریاتی وراثت کی منتقلی کو انجینئر کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اگرچہ تھیوکریسی کے محافظوںکے درمیان مقابلہ سخت گیر لوگوں کے حق میں طے پا گیا لیکن قدامت پسند کیمپ کے مابین فائدہ اٹھانے کے نئے مواقع کے ارد گرد لڑائی مزید بڑھ گئی جو ایسے چیلنجز میں اضافہ کا سبب بنی جن میں ایران کے مشکلات میں گھرے نمائندہ اداروں کو اپنے شہریوں کی طرف سے بہت کم دلچسپی یا احترام ملے، جیسا کہ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں ریکارڈ کم ٹرن آوٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے بجائے، ایرانیوں نے اپنی سیاسی خواہشات کے اظہار کے لیے سڑکوں اور انٹرنیٹ کا رخ کرنے کو ترجیحی دی ۔ ایک غیر متوقع سیاسی آغاز حکومت کے خلاف نئی سرگرمی کو جنم دے سکتا ہے، جس پر حادثے کی خبروں کے بعد ایرانیوں کی طرف سے جشن منانے کے مناظر روشنی ڈالتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ صدر کے انتقال نے ایران کے 85 سالہ سپریم لیڈر، آیت اللہ علی خامنہ ای کے حتمی انتقال کی تیاری میں برسوں کی محتاط سیاسی آرکیسٹریشن کو بیکار بنا دیا۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر