جائیے گھر جائیے، الیکشن بھول جائیے
تحریر: عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
موجودہ کہیے یا جانے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یوم شہدا کی تقریر جتنی مرتبہ چینلز پر چلائی گئی اور بعد ازاں اس پر کالم نگاروں نے صفحات اور تبصرہ نگاروں نے سکرینیں بھر دیں کہ یہ تقریر شائد اب بچوں کو بھی ازبر ہوگئی ہوگی لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا اس لمبی چوڑی سیاسی و غیر سیاسی تقریر کا صرف ایک جملہ مجھے یاد رہا اور وہ جملہ تھا ۔
"پاکستان شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے اور کسی ایک سیاسی پارٹی کے بس میں نہیں کہ وہ ملک کو اس شدید معاشی بحران سے نکال سکے "
یہ جملہ ماضی حال اور مستقبل کا حسین امتزاج ہے ملک کی موجودہ معاشی بدحالی کا ذکر کیا جائے تو صرف موجودہ حکومت کی چند ماہ کی خراب کارکردگی کو ہی مورد الزام نہیں ٹھرایا جاسکتا اس کے لیے ساڑھے تین سالہ دور عمرانی کا بھی حصہ موجود ہے معاشی "ٹائیٹینک " کو ڈوبنے کے لیے لمبا عرصہ خراب کارکردگی کا درکار ہوتا ہے، یہ تو تھا ماضی اور حال میں اس قوم کا معاشی اعشاریوں میں جو حال ہے وہ تو سب کو معلوم ہے ۔
ایک جانب تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران احمد خان نیازی ہے جو آج کل صرف ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی بد خبری سنا رہے ہیں ملک ڈیفالٹ ہوجائے گا بس اتنے دن باقی کی گردان سوشل میڈیا پر ان کی ٹیم اور الیکٹرانک میڈیا پر اُن کے بیانی فوج کے جرنیل مسلسل کر رہے ہیں ، اسی شور میں آزادی مارچ کا تڑکہ بھی لگایا جارہا ہے لیکن اس آزادی مارچ نے کم از کم امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ ریلیف دیا کہ انہیں تحریک انصاف کی حکومت گرانے سے بری الزمہ قرار دے دیا اور اس کے بعد آزادی مارچ کا نیا بیانیہ ڈوبتی معیشت اور جلد از جلد الیکشن کرانے تک محدود کرلیا ۔
اور یہی وہ دو مطالبات ہیں جس کاجواب اس سے قبل کے سول حکومت دیتی فوج کے سربراہ جناب قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر کے ایک جملے میں دے دیا اس جملے کو پھر پڑھیے
"پاکستان شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے اور کسی ایک سیاسی پارٹی کے بس میں نہیں کہ وہ ملک کو اس شدید معاشی بحران سے نکال سکے "
سیاسی اور معاشی تجزیہ کار تو دور مجھ جیسا طالبعلم بھی اس جملے کی گہرائی کو سمجھ سکتا ہے واضع اعلان ہے کہ ملک کی معاشی بد حالی کا ذمہ دا کون ہے؟ اور اب اس مشکل مالی صورتحال میں سے کون اسے نکال سکتا ہے جی ہاں " کوئی ایک جماعت " سے مراد ہی پاکستان تحریک انصاف ہے جو اس وقت سیاسی تنہائی کا شکار ہے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ملک کی کوئی ایک سیاسی ، مذہبی ، لسانی جماعت ایسی نہیں چھوڑی جسے اپنے دور اقتدار اور بعد از اقتدار میں چور ، ڈاکو ، غدار ، اور ملک دشمن قرار نہ دیا ہو ۔ جنرل صاحب کا واضع پیغام کو سمجھیئے جو کُھل کر فوج کے نیوٹرل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ معاشی طور پر ملک ڈوبنے سے بچانے کے لیے ایک ایسا سیاسی نظام وضع کیا جائے جو تمام جماعتوں کی باہمی رضامندی سے بنے اور نئے الیکشن کو اس اچھے وقت تک کے لیےٹال دیا جائے جب پاکستان کی معشت ڈیفالٹ ہونے کے بنیادی اعشاریوں میں سے نکل آئے ، اس کا واضع مطلب ہے کہ معیشت ٹھیک کرنے کے لیے ابتدائی طور پر چھ ماہ اور پھر دوبارہ چھ ماہ کی معاشی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے قومی سیاسی حکومت بنائی جائے ،اس وقت ایک جماعت کو نکال کر تمام جماعتیں اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں اس ایک جماعت کو بھی دعوت دی جائے اور اگر وہ جماعت (تحریک انصاف ) میں نہ مانوں کی اپنی ضد پر قائم رہے تو پھر اسے اس کی طبعی موت کی جانب جانے دیا جائے ہمارے سیاسی کلچر میں پہلے بھی تحریک استقلال نامی جماعت جس کے سرخیل ائر چیف مارشل (ر) اصغر خان تھے اس تجربے سے گزر چکی ہے ،اور اگر اب تحریک انصاف کے مشیران ، پیران اور موکلئین نے وہی مشورے دئیے جو اصغر خان صاحب کو دئیے جاتے رہے ہیں جس پر وہ ذوالفقار علی بھٹو سمیت تمام سیاستدانوں کو کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا اعلان کرتے رہے ہیں تو عمران خان بھی سیاسی تنہائی میں سیاسی موت کا شکار ہوجائیں گے جاتے جاتے یہ بھی بتادوں کہ حکومت 2023 میں نہیں 2024 میں انتخابات کا سوچ رہی ہے کیونکہ خان صاحب جس معاشی بدحالی کا ذکر کر رہے ہیں اسے ہی ہتھیار بنانے کی پوری تیاری کی گئی ہے ۔ راولپنڈی میں جلسے سے تاریخ نہیں ملنی اس لیے خان صاحب " جائیے گھر جائیے الیکشن بھول جائیے "