مادری زبان میں گالی دینے کے حیران کن فوائد

Oct 26, 2022 | 11:24:AM

(ویب ڈیسک)گالم گلوچ اور غصے میں جذبات کے اظہار کو طویل عرصے سے سنجیدہ تحقیق کے موضوع کے طور پر قبول نہیں کیا جا رہا تھا کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ محض جارحیت، زبان پر کمزور کنٹرول، یا یہاں تک کہ کم ذہانت کی علامت ہے۔
اب ہمارے پاس ایسے بہت سارے ثبوت دستیاب ہیں جو اس خیال کی تردید کرتے ہیں اور اسے ایک ایسے سنجیدہ موضوع کے طور سامنے لاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم جارحانہ الفاظ کی نوعیت اور طاقت پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ چاہے ہم گالم گلوچ کے حق میں ہیں یا نہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ وقتاً فوقتاً ایسے الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح جذبات کے اظہار کی طاقت کا اندازہ لگانے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ یہ رسم کہاں سے آتی ہے، ہم نے حال ہی میں اس موضوع پر مختلف شعبوں کے 100 سے زیادہ علمی مضامین کا جائزہ لیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’’بی بی سی ‘‘کے مطابق سائنسی جریدے ’لنگوا‘ میں شائع ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ممنوعہ الفاظ کا استعمال ہمارے سوچنے، عمل کرنے اور تعلق پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ لوگ اکثر گالم گلوچ کو ’کیتھارسس‘ یعنی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے عمل کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ زبان کے استعمال کے دوسرے طریقوں سے بلاشبہ مختلف اور زیادہ طاقتور طریقہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والوں کے لیے، اپنی مادری زبان میں گالی دینے سے ذہنی تشفی زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ یعنی بعد میں جو زبانیں سیکھی جاتی ہیں ان میں اس کا اظہار اس قدر سکون کا باعث نہیں بن سکتا۔ گالی جذبات کو ابھارتی ہے۔ 

ضرور پڑھیں :دنیا کا گندہ ترین شخص غسل لینے پر جاں سے گزر گیا

نیورو سائنسی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے الفاظ دماغ کے مختلف حصوں میں تقریر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں واقع ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر یہ ’لمبک سسٹم‘ کے حصوں کو متحرک کر سکتا ہے۔ یہ گہرے ڈھانچے میموری اور جذبات کی پروسیسنگ کے پہلوؤں میں شامل ہیں، جن کو روکنا فطری اور مشکل ہے۔ اس کی یہ وضاحت ہو سکتی ہے کہ جن لوگوں کو دماغی نقصان پہنچا ہے اور اس کے نتیجے میں بولنے میں دشواری ہو رہی ہے، ان میں اس طرح جذبات کے اظہار کی طاقت کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔

لیبارٹری کے تجربات بھی علمی اثرات دکھاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ گستاخیاں زیادہ توجہ مبذول کرتی ہیں اور دوسرے الفاظ کے مقابلے میں انھیں بہتر طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ لیکن وہ دوسرے الفاظ اور محرکات کی علمی پروسیسنگ میں بھی مداخلت کر سکتے ہیں، لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ گالی دینا بعض اوقات سوچ کے عمل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ایسے تجربات میں جن میں لوگوں کو برف کے پانی میں ہاتھ ڈبونے کی ضرورت ہوتی ہے، گالی دینے سے درد سے نجات ملتی ہے۔ ان مطالعات میں غیر جانبدار الفاظ کے مقابلے میں کسی قسم کے لفظ کو آواز دینے سے درد کی برداشت زیادہ ہوتی ہے اور درد کی حد زیادہ ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ مذہب اسلام میں گالی دینا بری بات ہے،گالی دینے والے کی نہ معاشرے میں عزت ہوتی ہے اور نہ ہی خاندان میں ،اس لئے کسی کو گالی دینے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔

مزیدخبریں