(24 نیوز) پاکستانی سیاست میں ہمیشہ سے توہم پرستی کا کردار رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ گدی نشین خاندانوں کی سیاست میں موجودگی اور عوامی مزاج میں پیری مریدی کا اثر و رسوخ ہے۔ بانیانِ پاکستان کو چھوڑ کر ان کے بعد ملک کا نظم و نسق سنبھالنے والی شخصیات کے ہاں ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔
موجودہ وقت میں اس قسم کی زیادہ روایتیں اور قصے کہانیاں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سےجڑی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاناما کیس کے آخری مرحلے میں خان صاحب کو کسی پہاڑی مقام پر ڈیرے لگانے کا مشورہ دیا گیا تھا اور وہ نتھیا گلی کے ریسٹ ہاؤس منتقل ہو گئے تھے۔
عمران خان کا روحانی طاقت پر اعتقاد نیا نہیں۔ اپنی سنہ 2011ء میں شائع ہونے والی کتاب 'پاکستان، اے پرسنل ہسٹری' میں لکھتے ہیں کہ بہت پہلے ساہیوال کے ایک پیر جی نے کہا تھا کہ نہ صرف میں مشہور ہوں گا بلکہ والدہ کا نام بھی روشن کروں گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے کرکٹ سے پہلی بار ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو لاہور کے نزدیک ایک سرحدی گاؤں میں رہنے والے ایک بزرگ بابا جھلا نے کہا کہ 'تو ابھی نہیں گیا، تو انشااللہ ابھی گیم میں ہے۔'
اسی حوالے سے عوامی حلقوں میں گزشتہ سال پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے نئے ڈی جی کی تقرری کو بھی زیر بحث لایا جا رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر عوامی حلقوں کی جانب سے اس بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی جیسی اہم تقرری میں تاخیر کی وجہ بھی کچھ اسی قسم کی ہے کہ عمران خان اس اہم فیصلے کے لیے اس وقت چاند گرہن کا انتظار کررہے تھے۔ عوامی حلقوں میں کی جانے والی ایسی قیاس آرائیوں کی تصدیق کرنا تو انتہائی مشکل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: عمران خان ارشد شریف کے جنازہ میں شرکت کریں گے یا نہیں؟
اس سلسلے میں معروف صحافی سید طلعت حسین سے ان کے یوٹیوب چینل پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے حوالے سے یہی سوال کیا۔ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس نقطے کی تصدیق کرنا تو ممکن نہیں لیکن پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے کچھ بھی بعید ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بھی بہت سے سیاست دانوں سے اسی قسم کی توہمات جڑی ہوئی ہیں۔
حال ہی میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے کل لانگ مارچ کی کال دیے جانے اور کل کے سورج گرہن میں بھی ایسے ہی تال میل کو بحث میں لایا جا رہا ہے۔ اگر عمران خان سے جڑی ہوئی ایسی توہمات کے حوالے سے بات کی جائے تو اس پر یقین کرنا کچھ خاص مشکل بھی نہیں۔
یہ موضوع آج پھر زیر بحث ہے کہ آیا عمران خان مرحوم ارشد شریف کے جنازے میں شرکت کریں گے یا نہیں۔
تحریک انصاف کے چئیرمین وسابق وزیر اعظم عمران خان ارشد شریف کے جنازہ میں شرکت کریں گے یا نہیں؟ ذرائع کے مطابق قریبی ساتھیوں کی طرف سے عمران خان پر جنازہ میں شرکت کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
عمران خان کے جنازوں میں شرکت سے گریز پر مختلف حلقوں میں چہ مگوئیاں بھی کی جارہی ہیں۔ کیونکہ عمران خان اپنے دیرینہ ساتھی نعیم الحق کے جنازہ میں شریک نہیں ہوئے، سابق وزیراعظم محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر کے جنازے سے بھی غیرحاضر رہے۔ عمران خان قریبی رفقاء اور مشاہیر کے جنازوں سے گریز پرتنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
صحافی ارشد شریف عمران خان کے بیانیے کی ترویج میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور عمران خان نے ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے سخت ترین بیانات بھی دیے۔
اب قریبی ساتھیوں نے مشورہ دیا ہے کہ عمران خان ارشد شریف کے نماز جنازہ میں لازمی شرکت کریں۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کو کسی نے ارشد شریف کے جنازے میں شرکت سے روک دیا ہے اور انہیں میت کے قریب جانے سے منع کیا گیا ہے۔
اس سب بحث کے بعد یہ مدعا انتہائی قابل غور ہے کہ ہمارے حکمران اور ایوانوں میں بیٹھ کے ہمارے فیصلے کرنے والے یہ لوگ کس ذہنی معیار کے ہیں اور یہ لوگ کس حیثیت سے ہماری تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔