جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو تاریخ میں کیسے یاد رکھا جائے گا؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت ختم ، سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے چیف جسٹس کو الوداعی عشائیہ دیا گیا جس میں نامزد چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مسرت ہلالی شریک ہوئے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے دل کی باتیں کی ۔اور ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنے خلاف ہونے والی تنقید کا بھی جواب دیا ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا اپنے الوداعی خطاب میں کہنا تھا کہ ہم کیس سنتے ہیں تو کاغذ پر کچھ فقرے لکھے ہوتے ہیں، اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ کہاں سچ ہے؟ اور کہاں جھوٹ ہے؟ ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں کیونکہ کاغذ کے ٹکڑوں پر جو لکھا گیا ہے وہ ایک پارٹی کو فائدہ دیتا ہے اور دوسرے کو نہیں۔
پروگرام ’10تک‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ اب بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چیف جسٹس اپنے کئے گئے فیصلوں پر صفائی دے رہے ہیں ۔اب یہ بات ھقیقت ہے کہ قاضی فائز عیسی کا دور جہاں سیاسی اور عدالتی تنازعات سے بھرپور رہا تو وہیں اُن کے بعض فیصلوں کی وجہ سے ملک کے سیاسی منظرنامے میں بڑی تبدیلیاں رُونما ہوئیں۔بطور جج اور پھر بطور چیف جسٹس ان کا تمام دور ہنگامہ خیز رہا۔ مجموعی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے۔ ۔پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد اور الیکشن میں انتخابی نشان کیس میں عدالتی فیصلے پر اگر کسی جج کی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ٹرولنگ ہوئی تو وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی تھے۔اُنہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز تشکیل دیے جن کے مطابق بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے بجائے تین سینئر ججز کے حوالے کردیا گیا۔پی ٹی آئی ان کے بیشتر فیصلوں سے ناخوش نظر آئی۔ چاہے وہ نیب ترامیم کیس ہو یا آرٹیکل تریسٹھ اے کا فیصلہ،اب تاریخ قاضی فائز عیسی کو کیسے یاد رکھتی ہے یہ آںے والا وقت بتائے گا۔بہرحال آج الوادعی ریفرنس میں نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس کی شان میں تعریفیں کرتے نظر آئے ۔جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سےمتعدد بار اختلاف کیا،انہوں نے ہمیشہ کھلے دل سے میرا مؤقف سنا،اگر آپ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو غصہ دلائیں گے تو اللہ ہی بچا سکتا ہے۔
اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا غصہ تو عدالت میں نظر نہیں آئے گا لیکن جسٹس منصور علی شاہ قاضی فائز عیسی پر اپنے غصے کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں ۔آج وہ الوداعی ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔اِس کے علاوہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک بھی ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔جس سے یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ عدالیہ میں واضح صف بندی ہوچکی ہے۔بہرحال جسٹس مںصور علی شاہ نے الوداعی ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات رجسٹرار سپریم کورٹ کو اپنے خط کے ذریعے بتائی ہیں ۔بظاہر جسٹس منصور علی شاہ کا یہ خط قاضی فائز عیسی کیخلاف چارج شیٹ معلوم ہوتی ہے ۔خط میں جسٹس مںصور علی شاہ نے چیف جسٹص قاضی فائز عیسی پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے بجائے مداخلت کے مزید دروازے کھول دیے۔
جسٹس مںصور علی شاہ کت بقول آئینی حدود سے تجاوز پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کروں گا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے خط میں لکھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز کے ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات مزید پریشان کن ہیں، چیف جسٹس کا کردار عوام کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، چیف جسٹس کا کام عدلیہ کا دفاع کرنا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر بیرونی دباؤ نظر انداز کیا،، ایک چیف جسٹس نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔جسٹس مںصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ میرا خط فل کورٹ ریفرنس کے ریکارڈ کے طور پر رکھا جائے، جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں لکھا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ عدالتی رواداری اور ہم آہنگی کے لیے لازمی احترام قائم کرنے میں ناکام رہے۔جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے بجائے مزید دروازے کھول دیے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے عدلیہ کے دفاع کے لیے اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا۔سینئر ترین جج نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ میں مداخلت پر ملی بھگت کے مرتکب رہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت پر شترمرغ کی طرح سر ریت میں دبائے رکھا۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی، ججز میں تفریق کے اثرات تا دیر عدلیہ پر رہیں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز نے عدلیہ کو کمزور کرنے والوں کو گراؤنڈ دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس میں شرکت اور ایسے دور کا جشن منانا پیغام دےگا کہ چیف جسٹس اپنے ادارے کو نیچا کرسکتے ہیں۔
اب جسٹس مںصور علی شاہ کے خط سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ چیف جسٹس نہ بننے کے باجود سرینڈر نہیں کریں گے۔ایک تاثر جو اُبھر رہا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے بعد جسٹس منیب اور جسٹس منصور علی شاہ استعفی دےدیں گے جس کے بعد حکومت کو کھلا راستہ مل جائے گا وہ اب زائل ہوتا نظر آرہا ہے۔آئینی ترامیم کے بعد بھی کھیل ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے۔پہلی اہم بات یہ ہے کہ جسٹص مںصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اب بھی ڈٹے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔جس کا یہ واضح اشارہ ہے کہ وہ حکومت کے آگے کھلا راستہ نہیں چھوڑنا چاہتے ۔دیکھا جائے تو حکومت نے آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرلی ہیں ۔لیکن خطرہ حکومت کے سر سے اب بھی ٹلا نہیں ہے ۔اب آئینی ترامیم عدالت میں چیلنج ہوسکتی ہیں ۔لیکن حکومت یہ امید ظاہر کر رہی ہے کہ آئینی ترامیم کے بعد حکومت کوئی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ آئینی ترامیم کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور اگر چیلنج کیا بھی جائے گا تو آئینی بینچ ہی اِس معاملے کو دیکھیں گا ۔جبکہ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ جوڈیشل ایڈوینچر کےراستے 26 ویں آئینی ترامیم نے بند کردی ہیں۔
اب حکومت جو بھی کہے لیکن اِس کو کہیں نہ کہیں یہ خدشہ ضرور ہے کہ آئینی ترامیم کو چیلنج کیا جاسکتا ہے اور اگر فرض کریں کہ آئینی ترامیم کو آئینی بینچ کالعدم قرار دے دیتا ہے تو پھر سب کچھ ریورس ہوجائے گا اور یوں سینارٹی کی بنیاد پر جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بن جائیں گے ۔یعنی حکومت کیلئے خطرہ اب بھی کم نہیں ہوا۔اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ آئینی بینچ کی تشکیل کیلئے تمام صوبوں سے برابر ججز ہوں گے اور سینیئر ترین جج آئینی بینچ کا پریزائیڈنگ جج ہو گا۔اور ممکن ہے جسٹس مںصور علی شاہ یا جسٹس منیب اختر میں سے ایک پریزائیڈینگ جج بن جائے جس کے بعد ساری گیم ہی بدل جائے ۔اور آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی ممکن ہےاس کمیٹی میں بھی جسٹس مںصور علی شاہ یا جسٹس منیب اختر شامل ہوں۔پھر 26 ویں آئینی ترامیم کے تحت ریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی پارلیمان کے زیر اثر لایا گیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔ اور ممکن ہے اِن چار ججز مین بھی جسٹس مںصور علی شاہ یا جسٹ منیب اکتر شامل ہوں ۔یعنی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت مرضی کے پینچز بھی اِتنی آسانی سے نہیں بنا سکتی۔حکومت کیلئے اب بھی خطرہ کسی لھاظ سے کم نہیں ہوا۔