(امانت گشکوری) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے کیس کے حوالے سے جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ جاری کردیا جس میں انہوں نے کہا کہ آئین ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے سنگین غداری کی کارروائیوں کی بار بار توثیق کی۔
اس حوالے سے نوٹ میں مزید کہا گیا کہ عدلیہ کی داخلی اور ادارہ جاتی آزادی کیلئے تقرریوں میں شفافیت اور احتساب بنیادی اصول ہیں کیونکہ تقرری کے عمل میں شفافیت و احتساب عوام کے اعتماد کو تقویت دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: الیکشن کی تیاریاں، ابتدائی حلقہ بندیوں پر کام مکمل ہونے کے قریب
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ شفاف عمل کو اپنا کر ہی عدالتی آزادی کو فروغ دیا جاتا ہے، میرٹ پر جج کی تقرری اہل افراد کی شناخت سے تقرری تک شفافیت سے ہی ممکن ہے، پہلے سے طے شدہ معیار سے نامزدگی میرٹ پر نہیں کی جاسکتی۔
’اہل افراد کی نشاندہی کے مرحلے پر چیف جسٹس کی پیدا کردہ رکاوٹ نے کمیشن کو آئینی اختیار سے روک دیا، کمیشن میرٹ کی بنیاد پر اصولوں کے مطابق نامزدگیوں میں ناکام رہا‘۔
اختلافی نوٹ میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے آمروں کو آئین کی دفعات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی اجازت دی، آمرانہ حکومتوں کے تحت ملک کی حکمرانی سپریم کورٹ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی، مجلس شوریٰ کی تحلیل کی آئین کے تحت صدر کو دیے گئے اختیارات کے بجائے اس عدالت کے ذریعے توثیق کی گئی۔
خیال رہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تقرری کیخلاف پی ٹی آئی حکومت نے درخواست دائر کی تھی جس کی سماعت جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی تھی۔
سپریم کورٹ نے دو ایک کی اکثریت سے وفاقی حکومت کی درخواست خارج کی تھی اور جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا، پشاور ہائیکورٹ نے پارلیمنٹری کمیٹی برائے ججز تقرری کے فیصلے کیخلاف درخواستیں منظور کی تھیں جبکہ سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔