پارلیمنٹ طاقتوریا سپریم کورٹ؟اختیارات کی خوفناک جنگ،الیکشن کمیشن پھنس گیا

Sep 26, 2024 | 09:53:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن گومگو کا شکار نظر آرہا ہے،ظاہر ہے الیکشن کمیشن نے اِس فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہے،اور یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن اِس حوالے سے سات مرتبہ سر جوڑ کر بیٹھا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا، سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد پر غور کے لیے الیکشن کمیشن کا ساتواں اجلاس بے نتیجہ ہی ثابت ہوا ۔ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد کے لیے الیکشن کمیشن کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔

 پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے معاملے پر غور کے لیے ایک اور اجلاس طلب کرلیا ہے۔ ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ الیکشن کمیشن کے 2 اراکین نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کی رائے دی اور قانونی ٹیم کی تجاویز سے اتفاق نہیں کیا۔ ارکان نے رائے دی کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد عملدرآمد نہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فیصلے پرفوری عملدرآمد کرکے نظرثانی کی اپیل کا انتظار کیا جائے۔ الیکشن کمیشن کل پھر معاملے پر مشاورت کرے گا۔اب بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن میں فیصلے پر عمل در آمد کے حوالے سے رائے تقسیم ہے،قانونی ماہرین بھی الیکشن کمیشن کو فیصلے پر عمل در آمد کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ،یعنی دیکھا جائے تو فیصلے پر عمل درآمد کرنا اِس وقت الیکشن کمیشن کیلئے بڑا امتحان بنا ہوا ہے،اگر الیکن کمیشن فیصلے پر عملدرآمد کرتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے فیصلے کی نفی کردے گا،اور اگر الیکشن کمیشن الیکشن ترمیمی ایکٹ کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے تو پھر دو آئینی ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائیں گے،اور قانونی جنگ مزید شدت اختیار کرتی بھی نظر آنے لگی گی ۔اب حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ کیونکہ پارلیمنٹ سپریم ہے،وہ کوئی بھی ترمیم کوسکتی ہے،اور جو الیکشن ایکٹ میں ترمیم ہوئی اُس کے بعد عدالتی فیصلہ اِس معاملے پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔اور رانا ثنا اللہ بھی یہی بات کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آٹھ ججز ہوں 11 ججز ہو یا17 ججز ہوں وہ قابل احترام ہیں،سپریم کورٹ نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں،۔آئین سے انحراف کرکے کوئی بھی عدالتی فیصلہ خلاف آئین تصور ہوگا۔
درحقیقت رانا ثنا اللہ بھی پارلیمنٹ میں کی جانے والی ترمیم کو حتمی کہہ رہے ہیں ۔جبکہ تحریک انصاف حکومت پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر پارلیمنٹ میں قانون سازی کر رہی ہے ۔اور جب اِس کی توقع کیخلاف کوئی عدالتی فیصلہ آتا ہے تب وہ پارلیمنٹ کی سپریمیسی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی ہے۔آج علیمہ خان نے بھی حکومت پر کچھ ایسے ہی الزامات لگاتے ہوئے کہنا تھا کہ گینگ آف 3 کی ایکشٹینشن کیلئے شیطانی ترامیم کی جارہی ہیں، اور یہ 9 مئی کے مجرمان کے تحفظ ، 8 فروری کے ووٹ چوروں کے تحفظ اور پی ٹی آئی کو ختم کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔


آج بانی پی ٹی آئی نے بھی میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ آئینی ترامیم کے بینیفشری ہیں جو انصاف نہیں ہونے دے رہے۔ سپریم کورٹ میں کل سے جو ہو رہا ہے سب کو پتا چل گیا ہے یہ کیا کر رہے ہیں ۔ یہ سب گینگ آف تھری کو توسیع دینے کے لیے کیا جا رہا ہے ۔ ملک کا بیڑا غرق تو انہوں نے کر لیا، اب سپریم کورٹ کو بھی تباہ کر رہے ہیں ۔گینگ آف تھری کی توسیع کی وجہ سے سارا ملک داؤ پر لگا ہوا ہے ۔اب تحریک انصاف کی طرح جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں پارلیمنٹ کی جانب سے کی جانے والی قانون سازیوں پر اپنے ایک عدالتی فیصلے کےذ ریعے روشی ڈالی تھی۔ٹیکس مقدمے میں 41 صفحات کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں دی گئی حدود کے تابع ہے، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو آرٹیکل 142 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے جبکہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی بھی کر سکتی ہے جس کا ماضی سے اطلاق ہوتا ہو۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ قوانین کا ماضی سے اطلاق ہونا آئین سے مشروط ہے، لفظ آئین سے مشروط کا مطلب واضح ہے کہ قانون سازی آئین میں دی گئی حدود کے مطابق ہی ممکن ہے، آئین پارلیمان پر پابندی عائد کرتا ہے کہ آرٹیکل 9 اور 28 میں دیے گئے حقوق ختم نہیں کیے جاسکتے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ کوئی بھی ترمیم دراصل کسی نہ کسی انداز میں قانون یا کسی شق کا خاتمہ ہی ہوتا ہے، ماضی سے اطلاق صرف انہی قوانین کا ممکن ہے جو پہلے سے دیے گئے حقوق کو ختم نہ کرے۔اب اِس وقت بحث پارلیمنٹ کی سپریمیسی کو لے کر چل ہی ہے ۔اور یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ کیا پارلیمنٹ کے کسی بھی قانون سازی کو حرف آخر سمجھا جائے گا یا نہیں ۔لیکن حکومتی عہدیداران پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کا دعوی کر رہے ہیں ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کی متفرق درخواستیں کب داخل کی گئیں؟دوسرا سوال، ججز کمیٹی کے سامنے درخواستیں کیوں پیش نہیں کی گئیں؟تیسرا سوال، درخواستیں سماعت کےلیے کب مقرر ہوئیں اور اس بارے میں کازلسٹ کیوں جاری نہ ہوئی؟چوتھا سوال، کیا فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا گیا؟پانچواں سوال، کس کورٹ روم یا چیمبر میں کن جج صاحبان نے سماعت کی؟چھٹا سوال، آرڈر سنانے کےلیے کاز لسٹ کیوں جاری نہ ہوئی؟ساتواں سوال، حکم نامہ جاری کرنے کے لیے وقت مقرر کیوں نہ کیا گیا؟آٹھواں سوال،اوریجنل فائل اور اصل حکم نامہ جمع کروائے بغیر ویب سائٹ پر کیسے اپ لوڈ ہوا؟نواں سوال، وضاحتی حکم نامہ سپریم کورٹ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا حکم کس نے دیا؟

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: