امریکی لڑکی جو اغواء ہوکر بدنام مجرموں میں شامل ہوگئی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک) پیٹی ہرسٹ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی 19 سالہ طالبہ تھیں جنھیں فروری 1974 میں اُن کے فلیٹ سے اغواء کر لیا گیا تھا۔
وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھیں اور نا ہی ان کو کسی عام مجرم نے اغواء کیا تھا۔ پیٹی ہرسٹ میڈیا کی بڑی کاروباری سلطنت کے مالک ولیم رینڈولف ہرسٹ کی پوتی تھیں اور ان کے کاروبار کے ایک حصے کی وارث بھی۔
ان کو اغواء کرنے والا گروہ ’سمبیونیز لبریشن آرمی‘ (ایس ایل اے) کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اغواء کے دو ماہ بعد پیٹی ایک بار پھر منظر عام پر آئیں مگر وہ منظر عجیب تھا کیونکہ تب وہ اسلحہ سے لیس اپنے اغواکاروں ہی کے ہمراہ ایک بینک کو لوٹ رہی تھیں۔
پیٹی ہرسٹ کی زندگی پر دستاویزی فلم بنانے والے ڈائریکٹر رابرٹ سٹون کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب ’وہ ٹائم میگزین کے سرورق پر موجود تھی۔ ہر کوئی اس کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔‘
’سب جاننا چاہتے تھے کہ کیا وہ ان کے ساتھ شامل ہوگئی ہیں؟ وہ ہیں کون؟ یہ کافی پراسرار چیز تھی۔‘
واضح رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ویت نام جنگ کے خاتمے کے باوجود امریکی سیاست میں امریکی صدر رچرڈ نکسن واٹر گیٹ سکینڈل کی وجہ سے خبروں کی زینت بنے ہوئے تھے۔
تاہم ایک امیر خاندان سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکی کے اغواء اور اس کے بعد اس کا ’باغی‘ بن جانا زیادہ مشہور ہوگیا۔
لیزلی جرسا ’دی ٹیکنگ آف پیٹی ہرسٹ‘ فلم کی پروڈیوسر ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پیٹی کو اغواء کرنے کے بعد اغواکاروں نے انھیں باندھ کر ایک الماری میں بند کر دیا گیا تھا جہاں وہ 57 دن تک قید رہیں۔ اُن کی مسلسل ذہن سازی کی جاتی رہی، اُن کا ریپ کیا گیا۔‘
سٹون کا کہنا ہے کہ ’ایس ایل اے نامی گروہ خود کو انقلابی کہتا تھا۔‘ بظاہر اس تنظیم کا کہنا تھا کہ وہ صدر نکسن کی آمریت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
جب پیٹی کو اغواء کیا گیا تو پہلے ایس ایل اے نے ان کی رہائی کے بدلے کیلیفورنیا کی عوام کیلئے خوراک کے عطیوں کی شکل میں لاکھوں ڈالرز کا مطالبہ کیا لیکن پیٹی کے والد نے مذاکرات روک دیے۔
لیزلی کا کہنا ہے کہ ’ایس ایل اے نے پیٹی سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ شامل ہو سکتی ہو یا پھر مر سکتی ہو۔‘
’جس پر اُس نے بندوق اٹھائی اور اُن کے ساتھ شامل ہوگئی۔‘
تین اپریل کو پیٹی نے خود اعلان کیا کہ وہ اس تنظیم کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہیں اور ان کا نیا نام ’تانیہ‘ ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے اپنے والدین کی مذمت بھی کی۔
کچھ ہی عرصے بعد وہ بینک ڈکیتی کا حصہ بنیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بینک ان کے دوست کے والد کا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ماں کی خدمت نہ کرنے پر تین بھائیوں نے بیویوں کو بیک وقت طلاق دیدی
بینک ڈکیتی کے بعد پیٹی کیلئے اُن کی زندگی میں واپسی کا راستہ بند ہوگیا۔ اب وہ ایف بی آئی کو مطلوب ایک مشہور مجرمہ بن چکی تھیں۔
لیزلی کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگوں نے اُن سے نفرت شروع کر دی تھی۔‘
اسی دوران ایس ایل اے اور پولیس کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں جرائم پیشہ گروہ کے چھ اراکین ہلاک ہوگئے۔ تانیہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھیں تاہم ہلاک ہونے والوں میں ولی ولف بھی شامل تھے جنھوں نے پیٹی کو اغواء کیا تھا۔
ایس ایل اے کے اراکین اور پولیس کے درمیان یہ جھڑپ ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی۔ بعد میں پیٹی نے ولی ولف کی موت پر افسوس کا اظہار کیا تو یہ بات بھی ان کے خلاف گئی۔
تقریبا ایک سال تک پیٹی حکام کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب ہوئیں لیکن 18 ستمبر 1975ء کو انھیں گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف ہبرنیا بینک ڈکیتی کا مقدمہ چلا۔
وہ اس مقدمے کا سامنا کرنے والی ایس ایل اے کی واحد رکن تھیں۔ میڈیا نے اس مقدمے کو ’صدی کا مقدمہ‘ قرار دیا۔
سٹون کا کہنا ہے کہ ’پیٹی کو اس دور میں بائیں بازو کی پرتشدد تحریک کا چہرہ سمجھ لیا گیا تھا۔‘ تاہم لیزلی کا کہنا ہے کہ پیٹی کو جھانسا دیا گیا تھا۔
پیٹی ہرسٹ کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن جیل میں دو سال گزارنے کے بعد ان کی سزا اس وقت کے صدر جمی کارٹر نے ختم کردی۔
رہائی کے بعد پیٹی نے ایس ایل اے کے خلاف گواہی بھی دی اور صدر بل کلنٹن نے 2001ء میں ان کیلئے معافی کا اعلان بھی کیا۔