(24نیوز) وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ چارٹر آف اکانومی ہونی چاہئے، اگر اپوزیشن جماعتیں آگے بڑھتی ہیں تو اچھی بات ہے، ملک کے چودہ اہم معاشی شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے جامع پلان تیار ہوچکا ہے جس کی براہ راست نگرانی وزیر اعظم خود کریں گے ۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔
جمعہ کو یہاں وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق سید فخر امام، وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار، وزیراعظم کے مشیر برائے سرمایہ کاری و تجارت عبدالرزاق داﺅد، وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین اور اقتصادی مشاورتی کونسل کے دیگر ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ 1972 کے بعد پہلی مرتبہ منظم انداز میں قومی معیشت کے اہم شعبوں کے حوالہ سے منظم منصوبہ بندی کی گئی ہے، قومی اقتصادی مشاورت کونسل میں نجی شعبہ کے سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا ہے، ہم نے 14 ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کی اور ان کیلئے مختصر، درمیانے اور طویل المیعاد پالیسیاں اور اہداف کا تعین کیا۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی مشاورتی کونسل کے مختلف گروپوں کی جانب سے پیش کردہ سفارشات اور پالیسیوں پر عملدرآمد کیلئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈویلپمنٹ(پائیڈ)سے ماہرین لئے جائیں گے، یہ ماہرین مختلف وزارتوں کے ساتھ تعاون کریں گے اور ان گروپوں کے مقرر کردہ اہداف پر پیشرفت کے بارے میں وزیراعظم کو ماہانہ پریزنٹیشن دی جائےگی، اس حوالہ سے منظم طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامع اور پائیدار اقتصادی بڑھوتری کے حصول کیلئے سفر کا آغاز کر دیا گیا ہے، ستمبر کے مہینے سے کارکردگی کا جائزہ لینے کا عمل شروع ہو گا، یہ ایک اہم پیشرفت ہے کیونکہ منصوبہ بندی کے بغیر ہم جامع اور پائیدار بڑھوتری حاصل نہیں کر سکتے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجہ میں معیشت کے تمام اشاریے درست میں گامزن ہیں، اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ملک میں کاروبار کیلئے اعتماد کی رینکنگ بڑھائی ہے، پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 16 سے 17 فیصد تک بڑھی ہے، اسی طرح موبائل فونز کی برآمدات درآمدات سے بڑھ گئی ہیں۔
اس موقع پروفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ وتحقیق سید فخر امام نے بتایا کہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن گزشتہ 20 سال میں زراعت کے شعبہ پر توجہ نہیں دی گئی۔1960 سے 2001 تک زرعی ترقی 4 فیصد تھی لیکن 20 سال میں یہ کم ہوکر 3 فیصد پر آگئی۔انہوں نے کہا کہ کاشتکار عمران خان کی اولین ترجیح ہیں،کاشتکار کا معیارزندگی بہتر معاوضہ سے ہی بلند ہوسکتا ہے،ملک میں 38 فیصد زرعی رقبہ پر گندم کاشت ہوتی ہے،اس کی امدادی قیمت 14 سو سے بڑھا کر 18 سو کرنے سے اس کی پیدوار میں 22 لاکھ ٹن ریکارڈ اضافہ ہوا۔اسی وجہ سے اس سال کوئی بحران پیدا نہیں ہوا۔دھان کی پیداوار میں 10لاکھ ٹن اضافہ ہواہے۔مکئی کی پیداوار میں 7 لاکھ ٹن اضافہ ہوا،کپاس کی پیداوار کا دس لاکھ ٹن بیلزکا ہدف تھا، توقع ہے کہ اس کے قریب قریب پیداوار ہوگی،موسم کی وجہ سے گزشتہ سال سندھ میں ہدف سے 50 فیصد کم پیداوار ہوئی۔انہوں نے کہا کہ کامیاب جوان پروگرام کے تحت کاشتکاروں کو دیئے جانے والے قرضوں سے زرعی پیداوار میں بہتری آئے گی اس کے علاوہ تحقیق اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر خصوصی توجہ مرکوز کر رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ ملک میں آم اور کنو کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہم لائیو سٹاک اورفشریز پر اپ گریڈ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داﺅد نے کہاکہ موجودہ حکومت صحیح معنوں میں ملکی برآمدات میں اضافہ پر توجہ دے رہی ہے۔ رواں مالی سال کے لئے برآمدات کا ہدف 38.7 ارب مقرر کیاگیا ہے ،اس میں مختلف مصنوعات کی برآمدات کا ہدف 31.2 ارب ڈالراور خدمات کی برآمدات کاہدف 7.5 ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ درآمدات میں کمی ہو اور برآمدات بڑھیں اور اس وقت برآمدات کے حوالے سے صورتحال انتہائی حوصلہ افزا ہے اور برآمدات کے اہداف ہم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ درآمدات اس لئے بڑھتی ہیں کہ ملک کے اندر مصنوعات تیارکرنے کی بجائے ہم دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں ۔ پہلی مرتبہ اب ملک میں مختلف مصنوعات کی تیاری شروع ہوئی ہے اور اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔ موبائل فونز ہم پہلے درآمد کرتے تھے ، اب یہ درآمد نہیں کئے جا رہے، اس کے علاوہ ٹیرف کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے اور خام مال پہلے 50 فیصد ڈیوٹی فری منگوایا جا رہا تھا اب وزیرخزانہ سے اس سلسلہ میں بات ہوئی ہے کہ آئندہ سال سے اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف پر ہماری توجہ مرکوز ہے، اس کی وجہ سے آمدن میں اضافہ ہوتا ہے تو مصنوعات اور خدمات کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے تاہم ملکی پیداوار یہ طلب پوری نہیں کر سکتی جس کی وجہ سے درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے اس سے ادائیگیوں کا توازن خراب ہوتا ہے اور پھر عالمی مالیاتی اداروں سمیت دیگر کے پاس جانا پڑتا ہے، ہماری کوشش ہے کہ ہم پائیدار اور جامع ترقی کی جانب آئیں اس کیلئے طویل اور قلیل المدتی حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام شہری کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانا اور انہیں زیادہ سے زیادہ اختیارات منتقل کرنے ہیں ہم نے اس عمل کو مکمل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کے لحاظ سے سرمایہ کاری کی شرح 15 فیصد ہے اس کو بڑھا کر 20 فیصد کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عامل کاشتکار کی پیداوار نہیں بڑھے گی تو ہمیں درآمدات کرنا ہوں گی، ملک میں آئی ٹی کے شعبہ میں ترقی ہوئی ہے تاہم ہماری برآمدات 2 ارب ڈالر ہیں جبکہ پڑوسی ملک بھارت کی برآمدات 150 سے لے کر 200 ارب ڈالر تک ہیں، ہم بڑے کاروباری طبقہ کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں، ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہے، ہمارے اخراجات 20 فیصد جبکہ محصولات 12 فیصد ہیں اس خلیج کو کم کرنا ہے، ہمیں ویلیو ایڈڈ برآمدات کی طرف جانا ہے، ترسیلات زر کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شرح نمو میں اضافہ کیلئے مکمل حکمت عملی تشکیل دی ہے، ہمیں اپنے تاجروں کو مزید سہولیات دینا ہوں گی، حکمت عملی کے بغیر پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول ممکن نہیں، ہمیں ٹیکسٹائل سمیت اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔
اقتصادی مشاورتی کونسل کے صنعت و برآمدات سے متعلق گروپ کے رکن محمد علی تابا نے اس موقع پر بتایا کہ برآمدات میں اضافہ اور نئی صنعتوں کا قیام ہماری ترجیح ہے، موجودہ حکومت نے طلب کے مطابق مصنوعات مقامی طور پر تیار کرنے کی پالیسی اپنائی ہے جو خوش آئند ہے، مینوفیکچرنگ، برآمدات اور درآمدات کے متبادل مقامی اشیا کی تیاری پر توجہ دے کر 7 سے 8 فیصد کی گروتھ ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ محمد علی تابا نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ ہر شعبہ میں کم سے کم ایک ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کیا جائے، اقتصادی مشاورتی کونسل کی سفارشات کو بجٹ میں شامل کیا گیا ہے اور وزیر خزانہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں باقی ماندہ سفارشات کو شامل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اقتصادی مشاورتی کونسل کے شریک چیئرمین اور ہاﺅسنگ و کسنٹرکشن گروپ کے رکن عارف حبیب نے کہا کہ موجودہ حکومت نے تعمیرات کے شعبہ پر خصوصی توجہ دی ہے اس کیلئے خصوصی پیکیج دیا گیا جس کے اچھے نتائج آ رہے ہیں، تعمیراتی میٹریل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، اسی طرح چھوٹے اور کم لاگت گھروں کی تعمیر کیلئے قرضوں کے اجرا میں بھی اضافہ ہوا ہے، اس وقت چھوٹے گھروں کی تعمیر کیلئے 150 ارب روپے تک کے قرضوں کی درخواستیں آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ معیشت کی طرح ہاﺅسنگ کے شعبہ میں بھی بڑھوتری کا عمل پائیدار بنیادوں پر ہو اور اس کی ڈاکومنٹیشن کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے غریب لوگوں کو رعایتی قرضوں کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے اور اس سے معاشی اہداف کا حصول بھی ممکن ہو گا۔
مالیاتی شعبہ اور قرضوں کی مینجمنٹ کے حوالہ سے اقتصادی مشاورتی کونسل کے گروپ کے چیئرمین سید سلیم رضا نے اس موقع پر بتایا کہ مالیاتی شعبہ کا استحکام موجودہ حکومت کی ترجیح ہے، مجموعی قومی پیداوار میں مالیاتی شعبہ کا حصہ دنیا کے مقابلہ میں کم ہے جس میں اضافہ کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، پاکستان میں کیش ٹو ڈیپازٹ کی شرح دنیا کے مقابلہ میں 42 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سکیورٹیز کو وسعت دی جا رہی ہے اس حوالہ سے ایک ایپ بھی بنائی جا رہی ہے، روشن ڈیجیٹل اکاﺅنٹ اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہماری ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کی پائیداریت اور فنانشل مارکیٹ کے استحکام کیلئے جے پی مارگن اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے، مرچنٹ اور ریٹیلرز کو مربوط کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ یونیورسل کیو آر کوڈ کی تشکیل کا کام بھی جاری ہے۔ سید سلیم رضا نے کہا کہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کیلئے ضروری ہے کہ ان پر ڈیوٹیز، ٹیکسز اور لیویز کی شرح کو کم کیا جائے تاکہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کی حوصلہ افزائی ہو۔
بعد ازاں مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے، اقتصادی مشاورتی کونسل میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل ہے، مختلف گروپوں کی سفارشات اور تجاویز پر عملدرآمد کا طریقہ کار انتہائی آسان ہے، ہر وزیر کو ہر ماہ وزیراعظم کے سامنے پیش ہونا ہے، وزارت خزانہ میں گروپوں کی مانیٹرنگ کیلئے یونٹ قائم کیا گیا ہے، ہماری نیت صاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ گروپوں کی سفارشات پر عملدرآمد کیلئے پائیڈ سے جو لوگ لئے جائیں گے ان پر کم اخراجات آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اگرچہ 2 سال رہ گئے ہیں مگر اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ جامع منصوبہ بندی ہونی چاہئے، چاہے ہم ہوں یا نہ ہوں، وزیراعظم 10 ڈیموں کی تعمیر کے منصوبہ پر بھی عمل پیرا ہیں۔۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، گذشتہ روز میری آئی ایم ایف کے حکام سے اچھی بات چیت ہوئی ہے، ستمبر کے آخر میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان باضابطہ بات چیت شروع ہو گی، اکتوبر میں واشنگٹن کے دورہ کے دوران آئی ایم ایف کے حکام سے مزید تفصیلی بات چیت ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں۔https://www.24urdu.com/27-Aug-2021/33826