(24 نیوز)اِس وقت تحریک انصاف شدید اندرونی تقسیم کا شکار نظر آرہی ہے۔۔اِس وقت بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی کوئی صورت بنتی نظر نہیں آرہی ۔یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد پارٹی وکلاء نے ہائی جیک کرلی ہے۔اور یہ بات حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے وکیلوں پر سیاسی سرمایہ کاری کی ،لیکن قانونی ٹیم پھر بھی بانی پی ٹی آئی کو رہا نہ کرسکے۔کیونکہ تحریک انصاف کے پرانے رہنماؤں کا یہ خیال ہے کہ پارٹی میں موجود نئے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی رہا ہوگئے تو اُن کی پارٹی میں کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی اور پرانے ساتھی پھر سے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ جمع ہوجائیں گے۔دیکھا جائے تو اِس وقت پارٹی پر وکیولوں کی اجارہ داری ہے ۔اب یہی وجہ ہے کہ علیمہ خان متحرک ہورہی ہیں اور ظاہر ہے جو خلوص خون کے رشتے میں ہوتا ہےوہ کسی اور میں نہیں ہوسکتا۔اب علیمہ خان اپنے بھائی کی رہائی کیلئے متحرک ہوچکی ہیں کیونکہ وہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت سے نہ صرف نالاں نظر آئی بلکہ اُن پر سوالات بھی اُٹھاتی نظر آئی ۔اور ساتھ یہ بھی کہتی نظر آئی کہ وہ سیاست میں نہیں آرہی لیکن وہ بانی پی ٹی آئی کی حفاظت اور رہائی کیلئے کام کرتی رہیں گی ۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب علیمہ خان کی باتوں سے یہ تاثر جھلک رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی حفاظت اور اُن کے کیسز پر کسی کی توجہ نہیں اِسی لئے اُنہیں ہی یہ معاملات دیکھنے پڑے ہیں ۔ پارٹی قیادت پر یہ سوال تو اُٹھ رہا ہے کہ وہ ابھی تک کسی قسم کی موبائلائیزیشن میں ناکام ہے ۔تحریک انصاف پانچ مرتبہ اپنہ جلسہ منسوخ کرچکی ہے پھر کل لاہور میں بھی تحریک انصاف نے جلسہ کرنا تھا لیکن وہ بھی منسوخ کردیا گیا اور اب 8 ستمبر کو تحریک انصاف جسلہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اور علیمہ خان اِس پر بھی سوال اُٹھاتی نظر آئی کہ اسٹیبلشمنٹ کےا شارے پر تھریک انصاف کے رہنماؤں نے بانی پی ٹی آئی پر دباؤ ڈالا کہ وہ جلسہ منسوخ کریں ۔جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف واضح کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف نے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لے کر جلسہ منسوخ کیا کیونکہ بانی پی ٹی آئی کو پتہ تھا کہ جلسہ ناکام ہوجائے گا۔
اب حکومت بھی تحریک انصاف کی جلسہ منسوخی پر اُنہیں تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔دیکھا جائے تو پی ٹی آئی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔رہی سہی کمی خیبر پختونخوا کی سرکار پوری کرتی نظر آرہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ علیمہ خان نے پشاور کا دورہ کیا ۔اس دوران انہوں نے جیل کاٹنے والے وکررز اور ان کے خاندان سے ملاقات کی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ علیمہ خان نے دورے کے بارے میں نہ وزیر اعلیٰ اور نہ ہی کسی کابینہ رکن کو اعتماد میں لیا۔علیمہ خان سے خیبر پختونخوا کی کابینہ کا کوئی رکن نہ ملا جبکہ ان کے سامنے ورکرز نے وزیر اعلیٰ اور دیگر قیادت کے خلاف شکایات کے انبار لگ دیے۔ذرائع کے مطابق علیمہ خان پی کے 83 میں ورکرز سے ملیں اور ان کی ناراضی دور کی۔ اس موقع پر علیمہ خان نے پارٹی قیادت سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ علیمہ خان نے خود ورکرز کو ساتھ لے کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے مہم چلانے کا بھی اعلان کیا۔اب ورکرز وزیر اعلی خیبرپختوںخوا سے نالاں نظر آرہے ہیں ۔صوبائی وزراء پہلے ہی اپنی خیبرپختوںخوا حکومت پر عدم اعتماد اور کرپشن کے الزامات لگا چکے ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ علیمہ خان نے خیبرپختونخوا کے معاملات پر بھی نظر رکھنا شرع کردی ہے۔تاثر تو یہی مل رہاہے کہ علیمہ خان بھی علی امین گنڈاپور پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں شاید اِسی لئے اُنہوں نے اپنے پشاور کے دورے پر علی امین گنڈا پور کو اعتماد میں نہیں لیا ۔اُلٹا نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ علی امین گنڈاپور اقرار نامے پر دستخط کروا رہے ہیں ۔
اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اور صوبائی وزراء سے اعتماد حاصل کرنے کے لیے اقرار نامے پر دستخط کرائے۔پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے اجلاس کی اندرونی کہانی کے مطابق اجلاس میں پی ٹی آئی کے 70 سے زیادہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت کی جبکہ اراکین اسمبلی عاطف خان، جنید اکبر ، شکیل خان اور شہرام ترکئی اجلاس میں شریک نہیں تھے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ وزیراعلی نے اجلاس کے دوران اراکین اسمبلی سے اقرار نامے پر دستخط لیے، اقرار نامے پر دستخط وزیراعلیٰ، بانی پی ٹی آئی اور گڈ گورننس کمیٹی پر اعتماد سے متعلق تھے۔ذرائع کے مطابق شیرعلی ارباب نے گڈ گورننس کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، انہوں نے گڈ گورننس کمیٹی کے ارکان پر اعتراض کیا،اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات کے خاتمے کے لیے سابق صدر عارف علوی کی صدارت میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔بہرحال یہ سب دیکھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کی صفوں میں واضح صف بندی ہے۔عطا تارڑ بھی فرما رہے ہیں کہ اِن کے گروپس بن گئے ہیں،یہ بات واضح ہوگئی ہے۔
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ علیمہ خان کے اپنی بھابی بشری بی بی سے بھی اختلافات پائے جاتے ہیں ۔واقفان حال کے مطابق علیمہ خان اپنی بشری بی کی سنسنی پھیلانے سے نالاں نظر آتی ہیں ۔کیونکہ علیمہ خان کے بقول بشری بی بی کی سنسنی پھیلانے سے پارٹی کو نقصان ہوتا ہے۔جیسا کہ بشری بی بی کے حوالے سےیہ خبریں گرم تھی کہ اُنہیں زہر دیا گیا ہے پھر اِسی طرح بانی پی ٹی آئی کی طبعیت ناساز ہونے کی خبریں بھی سامنے آئی تھی اور کہا جاتا ہے یہ یہ خبر بھی بشری بی بی کے ایماء پر پھیلائی گئی۔اب ایسے حالات میں جہاں تحریک انصاف میں روز تقسیم شدت اختیار کر رہی ہے وہاں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ آخر یہ جماعت کوئی بڑا جلسہ کربھی سکے گی یا نہیں ۔ بہرحال اسد قیصر پی ٹی آئی ورکرز کو تیاری کرنے کا کہہ رہے ہیں۔کیونکہ اُن کے بقول جلد انتخابات ہونے والے ہیں اور بانی پی ٹی آئی رہا ہونے والے ہیں۔
اسد قیصر کا دعوی اپنی جگہ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ بانی پی ٹی آئی جلد جیل سے باہر آئیں گے جبکہ علیمہ خان کے بقول اُنہیں جیل سے باہر لانے کی کوشش ہی نہیں کی جارہی ۔اب ایک طرف تحریک انصاف جلسے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور پھر منسوخ کردیتی ہے جبکہ شعیب شاہین کہہ چکے ہیں کہ 8 ستمبر کو ہونےو الا جلسہ کسی صورت منسوخ نہیں ہوگا چاہے کوئی بانی پی ٹی آئی کا نام کیوں نہ لے ۔اور ایسی ہی بات علیمہ خان اور نعیم حیدر پنجوتھا بھی کر رہے ہیں ۔