جو لڑکی لال قلندر تھی

Dec 27, 2022 | 12:43:PM

Shamroze Khan

آج سے 34 برس قبل یعنی دو دسمبر 1988ء کو بےنظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم پاکستان اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا جس کے بعد وہ ناصرف پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی تھیں۔

21 جون 1953ء کے خاصے گرم دن کراچی کے ’پنٹوز نرسنگ ہوم‘ میں بی بی کی پیدائش پر اہلخانہ سمیت نرسنگ ہوم کے عملے کے اراکین بھی بہت خوش تھے۔

اپنی اس پہلی اولاد کو والد نے ’پنکی‘ اور والدہ نے ’بےبی‘ کے ابتدائی ناموں سے پکارا مگر ادارے کے ریکارڈ میں بچی کا نام بےنظیر بھٹو درج کیا گیا جو اُس بچی کی ایک جواں سال مرحومہ پھوپھی کے نام پر رکھا گیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی شادی 1943ء میں شیریں امیر بیگم سے ہوئی جبکہ ستمبر 1951ء میں دوسری شادی کرد نژاد ایرانی خاتون نصرت بھٹو سے ہوئی۔

ذوالفقار اور نصرت بھٹّو کے چار بچے تھے جن میں بے نظیر کے علاوہ میر مرتضی، صنم بھٹو اور شاہنواز بھٹو شامل تھے۔

بےنظیر نے ابتدائی تعلیم ’لیڈی جیننگز نرسری‘ اور پھر ’کونونٹ آف جیسز اینڈ میری‘ کراچی سے حاصل کی۔ پھر دو سال کیلئے وہ راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ میں زیر تعلیم رہیں، جس کے بعد انھیں مری کے ’کونونٹ آف جیسس اینڈ میری‘ بھیجا گیا۔

دسمبر 1968ء میں 15 برس کی بےنظیر بھٹو نے امتیازی کارکردگی سے او لیولز کا امتحان پاس کیا تو انھیں اپریل 1969ء میں پولیٹیکل سائنس کی انڈر گریجویٹ ڈگری کیلئے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ریڈ کلف کالج بھیج دیا گیا۔

وہ ہارورڈ میں اپنے ہاسٹل ’ایلیٹ ہاؤس‘ کی سوشل سیکریٹری بھی بنیں اور والد کی طرح امور خارجہ میں دلچسپی رکھنے والی بےنظیر اُسی زمانے میں ویتنام کی جنگ میں امریکہ کے شامل ہونے کے خلاف مہم میں بھی سرگرم رہیں۔

سنہ 1972ء میں بےنظیر بھٹو پاکبھارت مذاکرات میں والد کے ہمراہ نظر آئیں۔ اس مرتبہ وہ مشہورِ زمانہ شملہ معاہدے کی تقریب میں شرکت کی غرض سے انڈیا پہنچیں جہاں وہ پہلی بار وزیر اعظم اندرا گاندھی سے بھی متعارف ہوئیں۔

یہ ذوالفقار علی بھٹو کی مسلسل رہنمائی میں جاری اُن کی سیاسی تربیت کا ایسا موڑ تھا جب انھیں ریڈیو اور اخبارات پر مشتمل انڈین میڈیا کی توجہ حاصل ہوئی۔

اتنی کم عمری میں خود پر پریس کی اس توجہ کو خود بےنظیر بھٹو نے اپنے ہی الفاظ میں یوں واضح کیا کہ ’میں نئی نسل کی علامت تھی۔ میں آزاد پاکستان میں پیدا ہوئی۔ اسی لیے میں اُن تمام پیچیدگیوں اور تعصبات سے پاک تھی جو تقسیمِ ہند کے خونی سانحے اور صدمات کے نتیجے میں بھارتیوں اور پاکستانیوں کو جدا کر چکے تھے۔‘

سنہ 1973ء میں ہارورڈ سے تعلیم مکمل ہونے پر بےنظیر نے فلسفے، سیاسیات و معاشیات کی تعلیم کیلئے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیڈی مارگریٹ ہال کالج کا رُخ کیا جہاں سے وہ سیکنڈ کلاس میں کامیاب ہو سکیں۔ پھر والد کے اصرار پر انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک اور ادارے سینٹ کیتھرینز کالج سے بین الاقوامی قانون و سفارتکاری میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری بھی حاصل کی۔

سنہ 1974ء میں بےنظیر کو اس وقت معمّر قذافی، انور السادات، شاہ حسین اور شاہ فیصل جیسے مسلم رہنماؤں سے ملاقات کا موقع اس وقت ملا جب وہ لاہور میں اپنے والد کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس میں شریک ہوئیں۔

پانچ جولائی 1977ء کو بری فوج کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور سیاسی قائدین، ادیبوں، صحافیوں، دانشوروں سمیت ہر اُس شخص کو گرفتار کیا جانے لگا جس کے بارے میں ذرا سا بھی شبہ تھا کہ وہ فوج یا اس کے اقتدار پر قبضہ کر لینے کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی گرفتار کیا گیا مگر جب بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج ہوا تو انھیں رہا کر دیا گیا۔

فوجی بغاوت کے بعد ذوالفقار بھٹّو نے نصرت بھٹّو کو پارٹی کا شریک سربراہ نامزد کر دیا تھا جبکہ اکتوبر 1977ء میں بےنظیر کو بھی پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا رکن مقرر کیا گیا۔

یہی وہ وقت تھا جب بےنظیر بھٹّو پارٹی کی مستقبل کی رہنما بن کر ابھریں اور پارٹی کا مقبول ترین سیاسی چہرہ بن گئیں۔ وہ اور نصرت بھٹّو جنرل ضیاء کے خلاف مظاہرے اور احتجاج منظم کرتی رہیں اور جب موقع ملتا تو جیل میں ذوالفقار بھٹو سے ملاقاتیں بھی کرتیں۔

ذوالفقار بھٹو پر اُن کے سیاسی مخالف احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلا۔ لاہور ہائی کورٹ نے انھیں پھانسی کی سزا سُنائی اور سپریم کورٹ نے یہ سزا برقرار رکھی۔ چار اپریل 1979ء کو ذوالفقار بھٹّو کو پھانسی دے دی گئی۔

پھانسی سے قبل ذوالفقار بھٹّو نے نصرت بھٹّو اور بےنظیر دونوں کو ملک سے باہر چلے جانے کو کہا مگر دونوں نے انکار کر دیا۔ اس پھانسی کے بعد بےنظیر اور نصرت بھٹّو کو پھر چھ ماہ کیلئے گرفتار کر لیا گیا۔ رہائی ملی تو دونوں کو مزید چھ ماہ کیلئے گھر پر نظر بند کر دیا گیا اور دونوں اپریل 1980ء میں رہا ہوئیں۔

2 مارچ 1981ء کو پی آئی اے کی پشاور جانے والی پرواز PK-326 کے ہائی جیک ہونے کے بعد ایک بار پھر بےنظیر اور نصرت بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا۔ جولائی 1981ء میں کینسر کے مرض کا شکار ہو جانے پر نصرت بھٹّو کو تو علاج کی غرض سے بیرونِ ملک جانے کیلئے رہا کر دیا گیا مگر بےنظیر قید رہیں۔

وہ سکھر اور کراچی کی جیل میں اسیر رہیں اور بعض اوقات انھیں ’قیدِ تنہائی‘ میں بھی رکھا گیا۔ قید و بند کی اِن صعوبتوں سے اُن کی صحت شدید متاثر ہوئی۔

دسمبر 1981ء میں ان کی رہائش گاہ کو ’سب جیل‘ قرار دے کر انھیں گھر پر ہی نظر بند کر دیا گیا اور تب ایک پرانی دوستی اُن کے کام آئی۔ یہ ہارورڈ میں اُن کے سرپرست جان کینیتھ گیل بریتھ کے صاحبزادے پیٹر گیل بریتھ تھے جو اُس وقت امریکی محکمۂ خارجہ سے بطور سفارتکار منسلک ہو چکے تھے۔

سنہ 1982ء میں جب جنرل ضیاء نے واشنگٹن کا دورہ کیا تو پیٹر گیل بریتھ نے روڈ آئی لینڈ سے سینیٹر کلے بورن پیل اور بااثر امریکی ماہر قانون و سیاستدان جیمس بکلی جیسے بارسوخ امریکی سیاستدانوں کے ذریعے جنرل ضیاء پر بےنظیر بھٹّو کی حمایت کیلئے خاصا دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں جنوری 1984ء میں حکومتِ پاکستان انھیں رہا کرنے پر تیار ہوگئی مگر رہائی کے بعد انھیں جنیوا بھجوا دیا گیا۔

جینیوا سے وہ لندن پہنچیں جہاں پہلے اُن کے سر کی ہڈی کی ایک سرجری بھی کی گئی۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران بےنظیر اور نصرت بھٹّو احتجاجی مظاہرے پر پولیس کے لاٹھی چارج کی وجہ سے زخمی ہوئی تھیں اور غالباً یہ سرجری اُسی کا نتیجہ تھی جس کے بعد بے نظیر باربیکن کے علاقے میں کرائے کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہوئیں۔

بروُک ایلن کے مطابق جب وہ اس بار برطانیہ پہنچیں تو اُن پر پے در پے گزرنے والی ذہنی صدمات نے تب تک انھیں صدمے کی حالت سے دوچار کر دیا تھا۔ وہ اپنے اطراف اچانک پیدا ہونے والی آوازوں پر اچھل پڑتیں یا پھر اپنے آس پاس موجود افراد سے اس شک میں پریشان رہا کرتیں کہ کوئی اُن کی نگرانی تو نہیں کر رہا۔ اس ذہنی کیفیت پر قابو پانے کیلئے انھوں نے دوستوں سے ملاقاتیں، شاپنگ، ڈنر اور سنیما جانے کا سلسلہ شروع کیا جو واقعی مددگار ثابت ہوا۔

بےنظیر کو لندن پہنچے ڈیڑھ برس سے بھی کم کا عرصہ گزرا تھا کہ انھیں اپنے 27 سالہ بھائی شاہنواز کی موت کا صدمہ سہنا پڑا۔

27 سالہ شاہنواز بھٹّو جولائی 1985ء میں فرانس کے شہر نیس میں واقع اپنے فلیٹ میں انتہائی پراسرار حالات میں مردہ پائے گئے تھے۔

جنرل ضیاء کی حکومت نے بےنظیر بھٹو کو شاہنواز بھٹو کی میت پاکستان لاکر دفن کرنے کی اجازت دے دی اور وہ بھائی کی تدفین کیلئے اگست میں پاکستان پہنچیں مگر گڑھی خدا بخش میں اس تدفین کے فوراً ہی بعد انھیں پھر گرفتار کرکے کراچی میں اُن کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔ نومبر 1985ء میں رہائی ملنے پر وہ پھر یورپ روانہ ہو گئیں۔

30 دسمبر 1985ء کو جب جنرل ضیاء نے مارشل لا کے خاتمے کا اعلان کیا تو تب ہی بےنظیر بھٹّو نے بھی وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ بےنظیر بھٹو سیاسی عمل کا حصّہ بننے کے لیے 10 اپریل 1986ء کو وطن واپس پہنچیں تو لاہور میں ان کا شاندار اور تاریخی استقبال کیا گیا جس میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔

اس فقیدالمثال استقبال اور شاندار سیاسی کامیابی کے بعد بےنظیر نے ملک بھر کے طوفانی دورے کیے اور زبردست سیاسی حمایت سمیٹی مگر انھیں ایک بار پھر گرفتار کر کے کراچی کی لانڈھی جیل میں قید کر دیا گیا۔

رہائی ملی تو انھوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز تو کیا ہی مگر ساتھ ساتھ 18 دسمبر 1987ء کو آصف علی زرداری سے شادی کرکے ایک نئی زندگی کا آغاز بھی کر دیا۔ اُن پر لکھی گئی کتابوں کے مطابق یہ ’ارینجڈ میرج‘ تھی اور آصف زرداری نصرت بھٹو کا انتخاب تھے۔

اس دوران پاکستان میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم منتخب ہوئے مگر 29 مئی 1988ء کو جنرل ضیا نے سانحۂ اوجڑی کیمپ کے تناظر میں محمد خان جونیجو کی حکومت کو قومی و صوبائی اسمبلیوں سمیت تحلیل کر دیا۔

جنرل ضیا 17 اگست 1988ء کو بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور اس حادثے کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ نومبر کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔

21 ستمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو کی اولین اولاد اور پارٹی کے موجودہ شریک چیئرمین بلاول بھٹّو زرداری کی ولادت سے پہلے کئی مہینوں کی حاملہ بےنظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی جو بلاول بھٹّو کی ولادت کے بعد بھی جاری رہی۔

پارٹی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پیپلز پارٹی کو زبردست کامیابی کی توقع کے تحت 18 ہزار سے زائد انتخابی امیدواروں کی درخواستیں موصول ہوئیں۔

تمام تر مشکلات و وجوہات کے باوجود بھی بےنظیر بھٹو 16 نومبر 1988ء کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہو ہی گئیں۔

دو دسمبر 1988ء کو بےنظیر نے پہلی بار پاکستان کی وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں جو پہلی بار 1988ء میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ دوسری بار اقتدار انہیں اکتوبر 1993ء میں ملا۔ 1997ء کے عام انتخابات میں شکست کے بعد وہ بیرون ملک چلی گئیں اور دس برس گزرنے کے بعد 2007ء اکتوبر میں پاکستان تشریف لائیں۔

دبئی سے کراچی پہنچنے پر ہزاروں افراد ان کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ پہنچے۔ وہ ایئرپورٹ سے اپنی رہائش گاہ کو لوٹ رہی تھیں کہ راستے میں ان کے قافلے کو خودکش بمباروں نے نشانہ بنایا۔ اُس حملے میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ بےنظیر بھٹو محفوظ رہی تھیں۔

وہ 2008ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنے وطن لوٹی تھیں۔ اسی حوالے سے 27 دسمبر 2007ء کو انہوں نے روالپنڈی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ بی بی عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو رہی تھیں اور لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکن ان کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔

اسی دوران پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے وہ گاڑی کی چھت سے باہر نکلی ہی تھیں کہ نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کردی۔ فائرنگ کے کچھ لمحات بعد بے نظیر کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

اس دھماکے میں جس گاڑی میں بے نظیر بھٹو سوار تھیں، اس کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہاں بے نظیر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئیں۔

ان کی شہادت پر ملک بھر، بالخصوص صوبہ سندھ میں بد امنی پھیل گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ایک ٹریبیونل نے بھی بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کی تحقیقات کی تھیں۔

اس واقعے کو اتنے برس گزرنے کے بعد بھی ملوث ملزمان ضمانت پر ہیں جبکہ پانچ ملزمان کو ٹرائل کورٹ نے شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا ہے۔

ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق جائے وقوعہ کو دھو کر ثبوت ختم کرنے کے الزام میں گرفتار دونوں پولیس افسران اس وقت ضمانت پر رہا ہیں اور ان کو دی گئی سزا کا فیصلہ معطل ہو چکا ہے۔

31 اگست 2017ء کو قتل کیس کا فیصلہ آنے کے بعد 7 ستمبر 2017ء کو پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کے وکیل نے فیصلہ چیلنج کیا اور عدالت سے استدعا کی کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے شواہد کو نظر انداز کیا ہے، لہذا سنائی گئی سزا غیرقانونی ہے اسلئے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

اس کے بعد 11 ستمبر 2017ء کو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں پولیس افسران کی نظر ثانی اپیلیں سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ان کی سزائیں معطل کر دی تھیں۔

لطیف کھوسہ، جو ملزمان کے خلاف اپیلوں میں آصف علی زرداری کے وکیل تھے، کے مطابق ’پرویزمشرف کے حکم پر کرائم سین دھو دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کیس کا معمہ حل نہیں ہو رہا۔‘

سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹوکے قتل کا کیس 9 سال اور 8 ماہ چلا۔ اس دوران آٹھ جج تبدیل ہوئے۔ پولیس اور ایف آئی اے نے چھ چالان عدالت میں جمع کروائے۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سمیت سات ملزمان پر 20 اگست 2013ء کو فرد جرم عائد کی گئی۔

پرویز مشرف کے خلاف امریکی صحافی مارک سیگل نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان بھی ریکارڈ کروایا۔ اس دوران پرویز مشرف مفرور ہوگئے اور اپنی صفائی میں ویڈیو لنک یا سکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ کروانے کی پیشکش کا بھی کوئی جواب نہ دیا، جس پر عدالت کی جانب سے وہ اشتہاری قرار پائے۔

ٹرائل کے دوران 141 گواہان کی فہرست میں سے 68 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج محمد اصغر خان نے 31 اگست 2017ء کو کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچ ملزمان رفاقت حسین، حسنین گل، شیر زمان، رشید احمد اور اعتزاز شاہ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا جبکہ پولیس افسران سی پی او سعود عزیز، ایس پی خرم شہزاد کو مجرمانہ غفلت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 17، 17 سال قید اور پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

عدالت نے کہا کہ سکیورٹی کا انتظام بہتر ہوتا تو بےنظیر بھٹو کے قتل کو روکا جاسکتا تھا۔ سزا پانے والے پولیس افسران نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جبکہ آصف زرداری نے بھی عدالت سے بری ہونے والے ملزمان کے خلاف رجوع کر رکھا ہے۔

آج ان کی 15 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے چاہنے والے اور معتمدین آج بھی ان کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہیں۔

مزیدخبریں