پاکستان نے ایٹمی اسلامی میزائل تیار کرلیا بھارت، اسرائیل نشانے پر
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
آج پاکستان کے لیے بڑی خوشخبری کا دن ہے آج دنیا نے تسلیم کرلیا کہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی اپنے ازلی دشمن بھارت سے کہیں بہتر اور کہیں ذیادہ ہے بھارت کا کوئی شہر اور کوئی ایٹمی تنصیبات اور فوجی اڈے اب پاکستان کے مزائیلوں سے دور نہیں ہیں یہ ایک بڑی کامیابی ہے جسے پاکستان کے عسکری سائنسدانوں نے حاصل کیا ہے پاکستان نے شاہین 3 کے بعد شاہین 4 میزائل کی تیاری کا آغاز کردیا ہے یہ ٹیکنالوجی بھارت سے آگے یعنی 5000 یا اس سے زائد کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت سے لیس ہوسکتی ہے اور اگر صحیح اندازے کی بات کی جائے تو اسرائیل کا تل ایبب شہر کراچی سے ٹھیک 4000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ،اس نئے میزائل کا ابھی نام تو نہیں رکھا گیا اس کا اعلان ہونا باقی ہے لیکن میں اسے اسلامی ایٹمی میزائل شاہین 4 کا نام اپنے مضمون کی سہولت کے لیے دے رہا ہوں ۔
پاکستان نے میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کوششیں افغان جنگ کے دوران ہی کردی تھیں اور اس کی بڑی وجہ سٹنگر جیسے چھوٹے میزائل کے ساتھ روسی افواج کے ہیلی کاپٹرز اور جنگی طیاروں کی نچلی پروازوں کومحدود کرنے کی کامیابی سے پیدا ہوا لیکن امریکہ اس ٹیکنالوجی کے پاکستان منتقلی کا پمیشہ مخالف رہا، افغانستان میں روسی مداخلت ختم ہوئی روس توٹ چکا تو پاکستان کے عسکری سائنسدانوں نے میزائل ٹیکنالوجی اور خاص کر ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کوششوں کا آغاز کیا آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر اگر انہیں اس حوالے یاد نا کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی ، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے میزائل پروگرام کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ،ان کی قیادت میں چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے گئے، جن کے ذریعے پاکستان نے ایم-11 میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی، جو بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے بنیاد بنی ، انہی کے دور میں غوری میزائل کے منصوبے کا آغاز کیا گیا، جس میں شمالی کوریا سے تعاون حاصل کیا گیا۔ ان کی ان کوششوں نے پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کو مضبوط کیا اور ملک کی اسٹریٹجک صلاحیتوں میں قابل ذکر اضافہ کیا۔ بے نظیر بھٹو کی یہ اقدامات پاکستان کے میزائل پروگرام میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، جو ملکی دفاع کو مستحکم بنانے کی ان کی دور اندیشی کا ثبوت ہیں۔
پاکستان آج میزائل ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اور اس کے بیلسٹک میزائل ملکی دفاعی نظام کا لازمی جزو ہیں۔ پاکستان کے میزائل پروگرام میں مختصر، درمیانے، اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے مختلف میزائل شامل ہیں۔ مختصر فاصلے کے میزائلوں میں نصر (60 کلومیٹر)، ابدالی (180 کلومیٹر)، اور غزنوی (290 کلومیٹر) نمایاں ہیں، جبکہ درمیانے فاصلے کے میزائلوں میں شاہین-1 (750 کلومیٹر) اور شاہین-2 (1,500 کلومیٹر) شامل ہیں۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں میں شاہین-3 (2,750 کلومیٹر) سب سے اہم ہے۔ اسی طرح، غوری میزائل (1,300 کلومیٹر) اور حتف سیریز بھی دفاعی نظام کا حصہ ہیں۔ ان میزائلوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ روایتی اور جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو پاکستان کی اسٹریٹجک دفاعی برتری کو یقینی بناتے ہیں۔ یہ میزائل پاکستان کو نہ صرف ایک مضبوط دفاعی نظام فراہم کرتے ہیں بلکہ دشمن کے خلاف جوابی کارروائی کی موثر صلاحیت بھی دیتے ہیں، یوں یہ ملک کی دفاعی حکمت عملی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
اگر یہاں حطے میں طاقت کے توازن کی بات کی جائے تو پاکستان اور بھارت نے اپنی دفاعی ضروریات کے مطابق بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقی کی ہے، تاہم دونوں ممالک کے میزائل پروگرام اپنی نوعیت اور صلاحیتوں میں مختلف ہیں۔ پاکستان کے میزائلوں میں شاہین-3 خاص اہمیت رکھتا ہے، جو 2,750 کلومیٹر تک اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ملکی دفاعی حکمت عملی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بھارت کے پاس اگنی-5 جیسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں، جن کی رینج 5,000 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت کے اگنی-3 اور پرتھوی میزائل مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کے میزائل پروگرام کی خاصیت ان کی درستگی اور جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت ہے، جو اسے خطے میں اسٹریٹجک دفاع کے لیے ایک نمایاں حیثیت فراہم کرتی ہے۔ بھارت نے طویل فاصلے کے میزائل اور اسپیس لانچ ٹیکنالوجی میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس کا میزائل دفاعی نظام زیادہ جدید ہے۔ تاہم، پاکستان کے میزائل اپنے دفاعی مقاصد کے لیے زیادہ مؤثر سمجھے جاتے ہیں، خاص طور پر دشمن کے خلاف فوری جوابی کارروائی کی صلاحیت میں۔ دونوں ممالک کی میزائل ٹیکنالوجی ان کی دفاعی حکمت عملیوں کے عین مطابق تیار کی گئی ہے، لیکن پاکستان کی میزائل صلاحیتیں خطے میں اسٹریٹجک برتری کا اظہار کرتی ہیں ۔
اب بات کرلیں کے دشمن کے کون کون سے اہداف ہمارے نشانے پر ہیں تو پاکستان کے شاہین 3 سے تو بھارت کے جنوب تک چنائے ، تامل ناڈو کس کوئی شہر محفوظ نہیں ہیں شاہین-3 میزائل، جو 2,750 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پاکستان کو بھارت کے کئی اہم شہروں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی اسٹریٹجک صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ اس میزائل کی رینج میں بھارت کے بڑے شہر جیسے نئی دہلی، ممبئی، کولکتہ، چنئی، اور بنگلور شامل ہیں، جبکہ اہم فوجی مراکز جیسے امبالا اور بھوشا بھی اس کی پہنچ میں آتے ہیں۔ یہ میزائل پاکستان کو بھارت کے اندرفوجی اڈوں اور اہم ایٹمی تنصیبات تک جوہری ہتھیار پہنچانے کی اہلیتکا حامل بناتے ہیں ظاہر ہے کہ بھارت کے پاس ذیادہ رینج والے مزائیل تو موجود ہیں لیکن وہ روائتی ہتھیاروں سے مزین مزایئل ہیں لیکن پاکستان نے ناقابل یقین حد تک اپنی مزائیل ٹیکنالوجی کو صرف ایٹمی وار ہیڈ تک بڑھایا ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ مستقبل میں جبگوں میں کامیابی کا ذیادہ تر انحصار مزائیل ٹیکنالوجی پر ہی ہوگا پاکستان نے پہلے صرف بھارت کو مدنطر رکھتے ہوئے اپنے مزائیل پروگرام کو برھایا لیکن اب اس بات کی شدت سے کمی محسوس کیا جارہی ہے کہ دشمن صرف بھارت تو نہیں اسلامی دنیا کا ایک مشترکہ دشمن اسرائیل بھی تو ہے جس کہ لیے اب اسلامی ایٹمی وار ہیڈ سے مزئین مزائیل شاہین 4 (فرضی نام ) کی تیاری کا آغاز کردیا گیا ہے امریکہ کی جانب سے انہی تیاریوں کے پیش نظر ہی پابندیاں لگائی گئیں ہیں لیکن پابندیان تو ایٹمی پروگرام ، مزائیل تیکنالوجی ، بلیسٹک ہتھیاروں پر بھی تھیں پاکستان کے عسکری سائنسدان جانتے ہیں کہ انہیں پابندیوں میں کون سی ٹیکنالوجی کیسے ایجاد و استعمال کرنا ہے ۔