آزادانہ انتخابات اور۔۔پیپلزپارٹی نے38مطالبے پیش کردیئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)پاکستان پیپلزپارٹی نے لانگ مارچ سے قبل 38 نکاتی مطالبات پیش کردیئے ۔ان 38 نکاتی فہرست میں اصولی بنیادوں پر عوامی ضروریات پر مبنی مطالبے شامل کیے گئے ہیں ۔ مطالبات یہ ہیں۔
حکومت کی ہر سطح پر ایماندارانہ اور آزادانہ انتخابات کرائے۔1973 کے آئین کے مطابق حکومت کا نظم و نسق کیا جائے۔ 1973 کے آئین میں دیئے گئے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے جدا جدا اختیارات کے اصولوں کی پاسداری کی جائے۔ تمام اداروں کے اپنی اپنی آ ئینی حدود میں رہتے ہوئے کارکردگی اور اختیارات دیئے جائیں ۔ پارلیمنٹ اور کمیٹی سسٹم کا استحکام اور پائیداری قائم کی جائے۔ اعلی عد لیہ کے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کے 1973 کے آئین میں دیئے گئے کردار کا ازسر نو تعین کیا جائے۔ آزاد الیکشن کمیشن اف پاکستان قائم کیا جائے۔ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔ ایک آزاد اور قابل احتساب عد لیہ قائم کی جائے ۔ تمام مزدوروں کا بشمول ان فارمل معیشت کے مزدور، کنٹریکٹ لیبر ، اپنے گھروں سےکام کرنے والے مزدور، گھریلو ملازمین ، موسم کے اعتبار سے کام کرنے والوں ، کھیت مزدوروں ، مویشی بانی میں کام کرنے والوں ، جنگلات کے شعبے کے کارکنوں ، ماہی گیری کے مزدور ، جہاز سازی ، کان کنی ، تعمیراتی شعبے ، مالیاتی شعبے ، ٹرانسپورٹ ، تجارت اور خدمات کے شعبوں کے مزدوروں کو یونین سازی کا حق دیا جائے ۔ فی الوقت صرف صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے گھر سے کام کرنے والے مزدوروں کو یونین سازی کا حق دیا ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان کے تمام مزدوروں کو یونین سازی کا حق حاصل ہونا چاہئیے ۔ طلبا کے لئے یونین سازی کا حق اور طالبعلموں کی فلاح و بہبود کےامور میں ان کا فیصلہ ساز کردار دیا جائے۔ آزادی اظہار کے حق کو یقینی بنایا جائے ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں باضابطہ اور غیر اعلانیہ دونوں قسم کی سنسر شپ کا خاتمہ کیا جائے۔ میڈیا کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق پیمرا کی آزادی کے لئے نئی قانون سازی کی جائے ۔ سائبر کرائم قانون کی تمام غیر منصفانہ اور جابرانہ دفعات کا خاتمہ کیا جائے۔ تمام پبلک اداروں میں ڈیٹا کے تحفظ کے لئے نئی قانون سازی کی جائے۔ تمام ضرورت مند مردوں اور خواتین کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی توسیع اور اصلاح کی جائے۔ ایک مساوات کمیشن کا قیام جو صوبوں کی مشاورت سے تمام خواتین اور اقلیتوں کے لئے منصفانہ اجرت اور روزگار پالیسی مرتب کرے گا ۔ خواتین کے خلاف تشدد، گھریلو تشدد، تیزاب کے حملوں اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے قوانین پر لازمی عملدر آمد کو یقینی بنایا جائے۔ تمام پبلک مقامات ، پبلک ٹرانسپورٹ اور پبلک سہولیات میں خواتین، بچوں اور خصوصی اہلیتوں کے افراد کا با سہولت داخلہ یقینی بنایا جائے۔ 16 سال کی عمر تک بچوں کی آئین میں دی گئی شق کے مطابق لازمی تعلیم کو ایک مقررہ مدت کے اندر اندر یقینی بنایا جائے۔ قابل استطاعت صحت اور علاج معالجے کے حقوق کی فراہمی کو بشمول مفت تشخیص ، آوٹ پیشنٹ کئیر ، دوائیاں ، اسپاتوں میں داخلے کی سہولت کو سرکاری اور منظور شدہ نجی شعبے کے اسپتالوں کے نیٹ ورک کے ذریعے یقینی بنایا جائے۔ ان خواتین کے لئے جنہیں زچہ اور بچہ کے سلسلے کی مفت خدمات اور نقد معاوضے کی ضرورت ہے ایک مقررہ مدت کے اندر اندر ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کیا جائے۔صوبائی خودمختاری اور آئین کی اٹھارویں ترمیم اور آئین کی دیگر شقوں کے تحت دئے گئے صوبائی حقوق مثلا نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے مقررہ مدت پر اجرا کی گارنٹی دی جائے۔ بلوچستان کے عوام کے پاکستان کے آئین کے تحت دئے گئے حقوق کی یقینی فراہمی اور ان کے فیصلہ سازی کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے قومی اتفاق رائے پیدا کی جائے ۔ایسے افراد کے سوا جن پر خطرناک نوعیت کے الزامات ہیں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانا اور سیاسی گفت و شنید کے ذریعے بلوچ سیاسی رہنماوں کو ملک میں واپس لانے اور ان کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے پر قومی اتفاق رائے پیدا کیاجائے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت تیل اور گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو ان کی تیل اور گیس کی پیداوارپر اپنی ضروریات پوری کرنے کے ترجیحی حقوق کو موثر بنایا جائے۔پر تشدد انتہا پسندی کی بیخ کنی کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا شامل ہے۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی شناخت اور ان کی خواہشات کے مطابق جنوبی پنجاب کے نئے صوبے کا قیام اور اس علاقے کو نظر انداز کئے جانے اور اس کی پسماندگی کا خاتمہ کیا جائے۔ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے علاقہ جات کی مالیاتی خودمختاری اور ان کو ان کے ریونیو اور مرکز سے تفویض کردہ مالی وسائل پر مکمل اختیار دیا جائے۔مزدوروں کے لئے قابل گزارہ اجرت کی ادائیگی کا حق ۔ ملک بھر میں موجودہ کم سے کم اجرت میں اتنا اضافہ جس میں وہ عزت کے ساتھ رہ سکیں اوراپنے اور اپنے افراد خاندان کے لئے معقول معیار زند گی کو ممکن بنا سکیں ۔تمام مزدوروں بشمول ان مزدورں کے جو معیشت کے ان فارمل شعبوں ، کنٹریکٹ لیبر ، اپنے گھر سے کام ، گھریلو ملازمین اور موسمی مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی کا تحفظ فراہم کیا جائے۔زرعی شعبے کے مزدوروں اور چھوٹے کسانوں پر لیبر قوانین ، کم سے کم اجرت کے قانون ، سوشل سیکیورٹی اور زیادہ سے زیادہ کام کے اوقات کے قوانین کا اطلاق کیا جائے۔ اس وقت سندھ واحد صوبہ ہے جس میں خواتین کھیت مزدوروں کو رجسٹر کرنے اور اان کو قانونی تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کے لئے قانون پاس کیا گیا ہے ۔ ان قوانین کو تمام ملک میں لاگو کیا جائے۔زرعی اجناس کی قیمتوں اور ان پر سبسڈی کے لئے ایک نیا فریم ورک تشکیل دینا جس سے قومی پیمانے پر غذائی تحفظ کے حق کی پاسداری ، مستحکم نرخوں اور شہری اور دیہی عوام کی یکساں آمدنی کو یقینی بنایا جائے ۔غریب طبقات کے لئے رہائش کی فراہمی کے حق اور ان کو جبری طور پر گھر سے بے دخل کرنے کے خلاف قانون سازی کی جائے۔ کچی آبادیوں اور انتہائی پسماندہ علاقوں کو ریگولرائز کرنے اور ان کو بنیادی شہری سہولتیں فراہم کرنے کے لئے قانونی فریم ورک کی تیاری کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں۔روس یوکرین جنگ، دنیا پر ایٹمی جنگ کے بادل منڈلانے لگے، روسی صدر کا مسلح افواج کو بڑا حکم