انتخابات از خود نوٹس: 4 ججز نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا ؟

Feb 27, 2023 | 16:26:PM

(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی ہے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا۔ جس میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے، چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پر طے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ  نے اختلافی نوٹ میں  لکھا ہے کہ میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔اپنے خدشات کو منظرعام پر لانا چاہتا ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں بینچ میں شامل ایک جج کی آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا۔ بار کونسلز نے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کردیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شامل جج پر اعتراض کردیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے دیگر سینئر ججز کی بنچ پر عدم شمولت پر بھی اعتراض اٹھایا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2 سینئرججز کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔

انہوں نے نوٹ میں لکھا ہے کہ آڈیو لیک کے بعد عوام میں تنازعہ کھڑا ہوا۔آڈیو بینچ میں موجود ایک جج سے بھی متعلقہ ہے۔ایک جج کی آڈیو سے متعلق عدالت کے اندر اور باہر آواز اٹھی۔سپریم کورٹ نے کوئی جواب دیا اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سےجواب آیا۔یہ خبر بھی شائع ہوئی پاکستان کونسلز نے ایک جج کیخلاف جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔

نوٹ کے مطابق جج پر لگائے گئے ایسے سنگین الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیں۔ایسے جج جس پر الزام ہے اسے بینچ میں شامل کرنا نامناسب ہے۔یہ معاملہ اس وقت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب دیگر سینئر ججز کو بینچ میں شامل نہ کیا جائے۔دو ججز اپنی واضح رائے دے چکے ہیں اس لیے انھیں شامل نہیں ہونا چاہیے۔عدلیہ کی اصل طاقت عوام کا اعتماد ہے۔عدالتی کی غیر جانبداری اور شفافیت ایسی ہونی چاہیے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں اہم سوال اٹھائے ہیں، ان کا کہنا ہےکہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے، میں نے جب عدالت میں آئینی نکات اٹھائے تو چیف جسٹس نے انہیں شامل کرنے پر اتفاق کیا، میرے سوالات پر بینچ کےکسی رکن نے اعتراض نہیں کیا، کھلی عدالت میں میرے سوالات کو شامل کرکے حکم نامہ لکھوایا گیا، چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، جہاں آئین کی تشریح اس عدالت کا اختیار ہے وہاں آئین کا تحفظ بھی اسی عدالت کا کام ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہےکہ چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے جو یہ ہیں، کیا صوبائی اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مستردکیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ اسمبلیاں توڑنےکی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے  والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی  عدالت کے  سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور  معاملے کو  دیکھنے سے  پہلے اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت  دیکھنا ناگزیر ہے، صوبائی اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت کو  نظر انداز  نہیں کیا  جاسکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ آئین ایک ایسی دستاویز ہے جسے آنے والے ہر وقت میں چلنا ہے، اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، یہ ناگزیر ہے کہ آئینی خلاف ورزیوں اور آئینی تشریح کے اہم معاملات کو فل کورٹ سنے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہو گئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ

جسٹس جمال خان مندوخیل نےاپنےاختلافی نوٹ میں آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ غلام ڈوگر کیس سے متعلق آڈیو سنجیدہ معاملہ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی الیکشن سے متعلق پہلے ہی اپنا ذہن واضح کرچکے ہیں۔

نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ دونوں ججز کا موقف ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہیے۔دونوں ججز نے رائے دیتے وقت آڑٹیکل 10 اے پر غور نہیں کیا۔ان حالات میں چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں لکھا پے کہ الیکشن سے متعلق درخواستیں لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں۔الیکشن سے متعلق درخواستیں پشاور ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس ہائیکورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر اثرانداز ہوں گے۔

 انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں۔ میری بینچ میں شمولیت سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔

مزیدخبریں