(24 نیوز)یو اے ای میں مقیم پاکستانی بہادر لڑکی ماہم امجد جس نے 14 سال 4 ماہ 29 دن بعد اپنے والد کے قاتل کو گرفتار کرایا،سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی زد میں آگئیں۔
تفصیلات کے مطابق ماہم امجد جو دبئی میں فیشن اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں ،کہتی ہے کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر300 سے زائد اکاﺅنٹس انہیں نشانہ بنا رہے ہیں ،ان کاکہناہے کہ یہ سب اس وقت ہوا جب انٹرپول نے میرے والد کے قاتل تقی شاہ کو گرفتارکیا، ان کاکہناتھا کہ ان سوشل میڈیا اکاﺅنٹس سے انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں ،میں نے متعلقہ اتھارٹی کو ان دھمکیوں کے بارے میں آگاہ کردیاگیاہے جو تحقیقات کررہے ہیں ۔
ماہم امجد کاکہناہے ’اب میں 15 برس کی ہوں اور نہ ہی کمزور،
اسی لیے اپنے والد کے قتل کے انصاف کیلئے آواز بلند کی، شوبز کے دوست ہوں، سیاستدان یا عام لوگ، سب نے میرا اس مشن میں بھرپور ساتھ دیا۔
26 اگست 2008 کو کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع سٹیٹ لائف کی عمارت میں ماہم امجد کے والد اور سٹیٹ لائف کمپنی کے ریجنل چیف محمد احمد امجد کو دس گولیاں مارکر قتل کیا گیا تھا۔مدعی محمد عارف نے موقف اختیار کیا تھا کہ ساڑھے گیارہ بجے محمد تقی شاہ جو وہاں سیلز منیجرتھے، محمد احمد کے کمرے میں گئے اور دو منٹ میں اندر سے فائرنگ کی آواز آئی،محمد عارف کے مطابق وہ فون چھوڑ کر کمرے میں گئے تو تقی شاہ پستول لے کر باہر نکلے اور محمد احمد امجد کو گولیاں لگی ہوئیں تھیں، جس سے ان کی ہلاکت ہوئی۔
پولیس کی تفتیش سے پتا چلتا ہے کہ محمد امجد ملزم کے خلاف انکوائری کر رہے تھے جبکہ وہ اپنے حکام بالا کو ان کی کارکردگی اور رویے کی تحریری طور پر آگاہی دے چکے تھے اور یہ بھی بتایا تھا کہ ملزم ان کا تعاقب کر رہا ہے۔اس کیس میں عدالت نے تقی شاہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے لیکن اس وقت تک وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے تھے،ماہم امجد بتاتی ہیں کہ 2020 میں انھوں نے لنکڈاِن پر تقی شاہ کی پروفائل دیکھی جس سے معلوم ہوا کہ وہ دبئی میں ہیں،ان کی ملازمت کی تفصیلات میں سٹیٹ لائف تحریر تھا۔
انھوں نے یہ پروفائل اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ شیئر کی جنھوں نے تصدیق کی کہ ہاں یہ ہی وہ شخص ہے جو ان کے والد کے قتل میں نامزد ہے،بہادر پاکستانی خاتون کے مطابق ’میں نے کووڈ کے دنوں میں دوبارہ فوٹو سٹیٹ نقول جمع کیں اور خاموشی سے کام کرتی رہی، جس کے بعد تمام ثبوت جمع کئے اور کیس دوبارہ کھل گیا۔‘
ماہم امجد نے گذشتہ سال 6 اکتوبر کو ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اپنا ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انھوں نے اپنے والد کے انصاف کیلئے مدد کی اپیل کی، جس میں انھیں کئی افراد نے قانونی مدد فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی۔
ماہم امجد کے مطابق انھوں نے سوشل میڈیا پر عوام سے مدد لینے سے قبل سٹیٹ لائف کے چیئرمین سے رابطے کی کوشش کی، انھیں فون کالز اور ای میلز کیں تاہم انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سٹیٹ لائف کی جانب سے کوئی جواب نہ ملنے پرمیں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا کیونکہ اب وہ کمزور نہیں تھیں، وہ مضبوط ہو چکی تھیں، ان کی ’فین فالونگ‘ تھی اور وہ پبلک فگر بن چکی تھیں، ان کے فینز اور کئی سیاستدانوں نے ان کی حمایت میں آواز اٹھائی۔
ان کے مطابق ’رد عمل میں ملزم نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں دھمکایا گیا اور میری کردار کشی کی گئی اور والد پر الزام عائد کئے گئے، جس پر میں نے ان کے خلاف مجرمانہ مقدمہ درج کرایا، جس کے بعد ان کو گرفتار کیا گیا اور وہ دبئی سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔‘
ماہم امجد نے دوبارہ ٹوئٹر پر پوسٹ لگائی جس میں انھوں نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے مخاطب ہوکر کہا کہ 14 سال 4 ماہ 29 دن بعد ان کی کوششوں سے ان کے والد کا قاتل متحدہ عرب امارات میں گرفتار ہو گیا۔
انھوں نے مزید لکھا کہ ملزم کی پاکستان حوالگی کی جو فائلیں متحدہ عرب امارات نے مانگی ہیں وہ 17 فروری سے آپ کے دفتر میں موجود ہیں۔ یہ فائلیں متحدہ عرب امارات پہنچنے کی آخری تاریخ 23 فروری ہے۔ ملزم کے انٹر پول کے ریڈ نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں۔
اس پیغام کے اگلے روز ماہم امجد نے ٹوئٹر پر پیغام شیئر کیا کہ ان کی پاکستان کے سفیر سے ملاقات ہوئی ہے۔ فیصل نیاز ترمذی نے انھیں مکمل تعاون کا یقین دلایا اور بتایا کہ حوالگی کی فائلیں متحدہ عرب امارات پہنچ گئی ہیں اور انھیں بغیر کسی تاخیر کے وزارت خارجہ امور متحدہ عرب امارات کے حوالے کر دیا جائے گا۔’اب یہ سبق سیکھا ہے کہ ہر کیس خود لڑنا ہوتا ہے اور اس کی پیروی کرنی ہوتی ہے، تب اس کے نتائج آتے ہیں۔‘