انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی گرما گرمی دن بدن بڑھ رہی ہے ،اور اس گرما گرمی میں صدر مملکت آفس نے بھی اب اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ نئے انتخابات کے بعد صدر مملکت کو 21 روز کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا ہوتا ہے جو ایک آئینی فریضہ ہے۔8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد 29 فروری وہ دن ہوگا جس دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی آئینی مدت پوری ہوگی ۔پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ صدر مملکت کو 29 تایخ تک یا اس سے پہلے اگر وہ چاہیں تو اجلاس بلا سکتے تھے لیکن صدر مملکت نے اسمبلی کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی اجلاس بلانے کی سمری مسترد کرکے واپس بھیج دی ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے موقف اختیارکیا ہےکہ پہلےخواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کو مکمل کیا جائے.جس کے بعد حکومت نے بھی پلان بی استعمال کرنے کے لیے مورچہ سنبھال لیا ہے اور جمعرات کو اسمبلی اجلاس ہر صورت بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نگران حکومت کا سمری کو ا اسپیکر سیکرٹریٹ بھیجنے کی منظوری دے دی ہے،جس کے بعد راجہ پرویز اشرف اسمبلی اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن جاری کرینگے صدر مملکت کی جانب سے اسمری پر دستخط نہ کرنے کی چہہ مگوئیان دو روز سے جاری تھی اور سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ صدر مملکت کے اس جواز کی وجہ سے کیا ایک نیا آئینی بحران پیدا ہونے کا خطرہ ہے؟؟ تو ایسا بالکل نہیں تھا کیونکہ آئین عام معاملات میں صدر مملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ پندرہ روز تک کسی بھی سمری کو روک سکتےہیں لیکن الیکشن کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کےمعاملے میں آئین ایک اور آرٹیکل کےذریعے انہیں مقررہ تاریخ سے پہلے یا مقررہ تاریخ تک اجلاس بلانے کا پابند ہر صورت پابند بناتا ہے۔ آرٹیکل91کی دفعہ 2 کے تحت 21 دن تک اجلاس بلانا لازمی ہے، صدراجلاس نہیں بھی بلاتے تو 29 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہر صورت ہوجائے گا اور 29 فروری کو ہونے والا اجلاس آئین کے عین مطابق ہوگا۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے بیشتر رہنما پر امید ہیں کہ اجلاس 29 فروری کو منعقد ہو جائے گا۔اور یکم مارچ تک وزیر اعظم شہباز شریف ھلف اٹھا لینگے۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں
سیاسی پارہ ہائی ،صدر مملکت کیا فیصلہ کرنے والے ہیں؟
Feb 27, 2024 | 10:39:AM
Read more!