ہم اُس مذہب کے پیروکار ہیں جس کا آغاز تحقیق یعنی اقرا اور دلیل یعنی غور کرنے کی بار بار دعوت سے ہوا۔ گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے میں تحقیق اور اور دلیل جیسے ختم ہو گئی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک جنون ہے جس نے سارے ماحول کو جنونی بنا رکھا ہے۔ ایسی ہی جنونیت کا شکار ایک خاتون لاہور شہر کے گنجان آباد علاقے کی مارکیٹ میں ہوئی ۔یہ خاتون عربی حروف تہجی والا لباس پہننے ا پنے محرم یعنی شوہر کیساتھ اچھرہ مارکیٹ شاپنگ کی غرض سے جاتی ہے لیکن ایک گروہ اس کے لباس پر اعتراض کرتا ہے اور اسے فوری یہ لباس تبدیل کرنے کا حکم صادر کر دیتا ہے۔ اس لمحے بھرے بازار میں یہ خاتون بے بسی کی تصویر بن جاتی ہے جو یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔کیونکہ اس نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ایسا لباس زیب تن کیا ہے جو عربی رسما لخط کو اجاگر کر رہا ہے اور دکھنے میں خوبصورت ہے۔ لیکن پر تشدد گروہ نے اس کےلباس پر نقش پرنٹ کو قرآنی آیات سے تعبیر کیا اور فوراً اس پر توہین مذہب کا الزام دھر دیا۔ اس گروہ کو دیکھا دیکھی بازار میں ہجوم اکھٹا ہو گیا اور الزام سینہ بہ سینہ ہر دوسرے فرد تک پہنچتا گیا جس کے بعد ایک نہتی ،بے بس اور لاچار عورت کو اس کے خاوند کے ہمراہ حراساں کرنا شروع کر دیا گیا۔اسی دوران اچھرہ پولیس کو ون فائیو پر کال موصول ہوتی ہے ۔معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پنجاب پولیس کی خاتون پولیس آفیسر اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی 15 ہیلپ لائن کی کال پر جائے وقوعہ پہنچتی ہیں اور معاملے کو زبردست انداز میں اپنے کنٹرول میں لیتی ہیں ۔ایس پی شہر بانو جیسی خاتون اس موقع پر مردوں کی جھنڈ میں دیدہ دلیری کی وہ مثال قائم کرتی ہیں کہ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہو گی ۔ انہوں نے بروقت صورتحال کو نہ صرف بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت باہر نکال لیا۔ یہ واقعہ کیسے پیش آیا ؟جانئے اسی پولیس افسر کی زبانی
اچھرہ واقعہ،اصل حقائق سامنے آگئے
Feb 27, 2024 | 11:07:AM
Read more!