(ویب ڈیسک) بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا اور روہن بوپنا کی جوڑی کو آسٹریلین اوپن ٹینس چیمپئن شپ کے فائنل میں شکست ہوگئی، کیرئیر کے آخری میچ میں ثانیہ آبدیدہ ہوگئیں ۔
آسٹریلین اوپن ڈبلز کے فائنل میچ میں فاتح برازیلین جوڑی نے بھارتی نامور ٹینس سٹار ثانیہ مرزا اور ان کے ہم وطن جوڑی دار روہن بھوپنا کو ہرادیا ، ٹینس سٹار ثانیہ مرزا نے اس موقع پر کہا کہ فاتح جوڑی نے ہم سے اچھا کھیل پیش کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔
کیریئر کے اختتام پر ثانیہ مرزا اپنے آنسو روک نہ سکیں، میچ کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے بھارتی ٹینس سٹار نے کہا کہ کیریئر کا آخری میچ کھیلنے پر خوش ہوں، میرا پروفیشنل کیریئر میلبورن سے شروع ہوا اور اپنا کیریئرختم کرنے کیلئے اس سے بہتر میدان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔
ثانیہ مرزا نے مزید کہا کہ اپنے کیریئر سے مطمئن ہوں اور اپنے والدین اور مداحوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔
گزشتہ سال جنوری میں ثانیہ نے اعلان کیا تھا کہ 2022ء ان کا آخری سیزن ہوگا لیکن وہ پٹھوں میں چوٹ کی وجہ سے آخری گرینڈ سلیم میں حصہ نہیں لے سکیں۔
ایسے میں ان کی ریٹائرمنٹ کا منصوبہ کچھ مہینوں کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا اور اب انھوں نے دو ٹورنامنٹس میں شرکت کے بعد کھیل کو الوداع کہنے کا اعلان کیا ہے۔
ثانیہ مرزا نے لکھا کہ پہلا گرینڈ سلیم کھیلنے کے 18 سال بعد آسٹریلین اوپن ان کا آخری گرینڈ سلیم ہوگا۔
آسٹریلین اوپن کے بعد ثانیہ مرزا 19 سے 25 فروری تک دبئی ڈیوٹی فری ٹینس چیمپئن شپ میں بھی شرکت کریں گی۔
میلبورن اور دبئی، یہ ٹینس ٹور کے دو مراکز ہیں اور ساتھ ہی گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ثانیہ کے سپورٹس کیریئر کی عکاسی کرتے ہیں۔
ثانیہ مرزا کو 18 سال پہلے میلبورن میں دیکھا گیا تھا جب وہ ٹھیک 18 سال کی ہی عمر میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تیسرے راؤنڈ میں ثانیہ سرینا ولیمز کو شاٹ سے جواب دے رہی تھیں۔
اس وقت یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ ان کے فارہینڈ شاٹس کسی بھی دوسری انڈین خاتون کھلاڑی سے زیادہ جارحانہ ہیں۔
ان کے مختصر سکرٹس اور بولڈ پیغامات والی ٹی شرٹس بھی ان کی پہچان بنیں۔
ثانیہ ٹاپ لیول پر ٹینس کھیل رہی تھیں۔ ثانیہ نے وجے امرتراج (سب سے زیادہ رینکنگ 18 ویں) اور رمیش کرشنن (سب سے زیادہ رینکنگ 23 ویں) کے بعد انڈیا کی ٹاپ کھلاڑی بننے کا کارنامہ بھی دکھایا۔
رمیش کرشنن کے 22 سال بعد ثانیہ ٹاپ 30 کھلاڑیوں میں جگہ بنانے والی پہلی انڈین کھلاڑی بن گئیں۔ اس کے بعد 16 سال گزر چکے ہیں اور ثانیہ ٹینس کورٹ میں موجود ہیں۔
27 اگست 2007ء کو ثانیہ دنیا کی 27 ویں رینکنگ کھلاڑی بن گئیں۔ انھوں نے حیدرآباد میں منعقدہ ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتا اور تین بار ڈبلیو ٹی اے کے فائنل میں پہنچی۔
اگلے چار سالوں تک وہ دنیا کی ٹاپ 35 کھلاڑیوں میں شامل رہیں اور اس کے بعد اگلے چار سالوں تک ان کا شمار دنیا کی ٹاپ 100 کھلاڑیوں میں ہوتا رہا لیکن گھٹنے اور کلائی کی چوٹوں نے ان کے سنگلز کیریئر کا خاتمہ کردیا لیکن اس کے بعد ثانیہ نے ڈبلز ٹینس میں مزید سرخیاں حاصل کیں۔
ڈبلز ٹینس میں انھوں نے 43 ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتے اور 2015ء میں دنیا کی نمبر 1 کھلاڑی بننے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔ انھوں نے 6 گرینڈ سلیم ٹائٹل بھی جیتے۔
ثانیہ نے مکسڈ ڈبلز میں تین گرینڈ سلیم حاصل کیے جب کہ مارٹینا ہنگس کے ساتھ مل کر اسی سال ومبلڈن، یو ایس اوپن اور آسٹریلین اوپن ٹائٹل جیتے۔
43 ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتنے کے علاوہ ثانیہ 23 بار ڈبلیو ٹی اے ڈبلز کے فائنل میں پہنچی ہیں۔ یہاں تک کہ 2022ء میں انھوں نے جمہوریہ چیک کی لوسی ہراڈیکا کے ساتھ کلے کورٹس پر 2 ڈبلیو ٹی اے فائنلز میں بھی حصہ لیا۔
ثانیہ اگلے ماہ اپنے کیریئر کا آخری میچ دبئی میں کھیلیں گی جہاں وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے بیٹے اور شوہر شعیب ملک کے ساتھ گزارتی ہیں۔
میلبورن سے دبئی کا سفر منظم نظر آتا ہے لیکن یہ ثانیہ کی شخصیت کے بالکل برعکس ہے کیونکہ اپنے کیریئر میں انہیں وقتاً فوقتاً کئی تنازعات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
انھیں انڈین ٹینس کی پہلی خاتون سپر سٹار کہا جاتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیڈمنٹن کھلاڑی ثائنہ نہوال انڈین کھیلوں کی دنیا کی پہلی خاتون سپر سٹار تھیں۔ چونکہ ٹینس ایک بین الاقوامی کھیل ہے، اس لیے ثانیہ کی مقبولیت ثائنہ نہوال سے زیادہ بڑھی۔
دو دہائیاں قبل ثانیہ اپنے دور کی انڈین خواتین کھلاڑیوں سے بہت مختلف تھیں۔ وہ نئی نسل کی ایتھلیٹ تھی، پراعتماد، بے باک، بے خوف۔
2005ء میں انڈیا ٹوڈے میگزین کے لیے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان لڑکیوں کو منی سکرٹ نہیں پہننا چاہیئے جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کمیونٹی کو تم پر فخر ہے۔‘
ثانیہ کو جو کرنا تھا، وہ دو دہائیوں سے کر رہی ہے۔ خاص طور پر ثانیہ کے تیز رفتار فور ہینڈ شاٹس، جن کی یاد دیر تک رہے گی۔
ان کے شاٹس کا تاثر انڈین ٹینس کی تاریخ میں انمٹ رہے گا۔ ہم نے ثانیہ مرزا کو ’سوسائٹی‘ جیسے میگزین کے صفحات پر بھی دیکھا ہے کیونکہ وہ ٹینس کی کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سپر سلیبریٹی بھی ہیں لیکن ثانیہ مرزا کو ان کی سب سے بڑی خاصیت کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے جمعہ کو ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جذباتی پوسٹ میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔
ثانیہ جب چھ سال کی تھیں تو حیدرآباد کے نظام کلب کورٹ کے کوچ سے ان کی لڑائی ہو گئی کیونکہ کوچ ان کو عمر میں بہت چھوٹا سمجھتا تھا۔
ٹینس کورٹ میں مقابلے کے دوران ثانیہ کا انداز بالکل مختلف ہوتا تھا۔ جب میچ مشکل ہو جاتا تو ثانیہ اپنے بال باندھ لیتی اور دباؤ پڑنے پر کورٹ میں لڑنے کے لیے تیار ہو جاتی اور ٹینس کورٹ کے باہر، وہ اس قسم کی عورت تھی جسے بتایا جا رہا تھا کہ کیسے رہنا ہے۔ جنھیں بلا ضرورت کئی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔ جو قدامت پسندی سے ایسے ناقابل یقین طریقے سے لڑ رہی تھی کہ ان کو باڈی گارڈز کے ساتھ چلنا پڑا۔ لیکن دو دہائیوں تک ثانیہ پیچھے نہیں ہٹیں۔