سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ بار بول پڑی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل نے فل کورٹ تشکیل نہ دینے اور گزشتہ روز کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کر دیا۔
سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کے نمائندوں کا مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں ججز تقرری رولز سے متعلق امور زیر بحث آئے۔ بار کونسلز نے عجلت میں بلائے گئے جوڈیشل کمیشن اجلاس پر تحفظات کا اظہار کیا۔
بعدازں صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنز کی دعوت پر تمام بار ایسوسی ایشنز نے شرکت کی، تمام بار ایسوسی ایشنز نے اعلی عدلیہ میں سنیارٹی کے برخلاف ہونے والی تقرریوں کو نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نئے ججز کی تقرری کا معاملہ، چیف جسٹس پاکستان نے جوڈیشل کمیشن اجلاس طلب کرلیا
احسن بھون کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان اور جوڈیشل کمیشن ممبران سنیارٹی اصول کو مد نظر رکھیں، 12 سال سے بارز مطالبہ کرتی ہیں کہ 184(3) کے طریقہ کار طے کیا جائے، 184(3) کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا جائے، حکومت سے بھی 184(3) میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے مزید کہا کہ نظر ثانی کیس میں وکیل تبدیل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، بینچز کی تشکیل کا فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ سینئر جج صاحبان کو کرنا چاہیے، آئین اجازت دیتا ہے کہ تقرری کیلئے جج کا نام کوئی بھی جوڈیشل کمیشن کا ممبر کر سکتا ہے۔
احسن بھون نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف حکومت کا کیوریٹیو ریویو واپس ہونا چاہیے، جسٹس قاضی فائز عیسی کے خط سے ادارے میں تقسیم واضح ہوتی ہے، جوڈیشل کمیشن کے رولز آئین کے برخلاف ہیں، جونئیر ججز کی نامزدگی سے تاثر ملتا ہے کہ کچھ لوگوں کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، ججز تقرری کوئی الیکشن کا عمل نہیں۔
صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا کل کا فیصلہ حقائق اور قانون کے برخلاف تصور ہوگا، آٹھ ججز کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا، آئین سے متصادم فیصلوں کا آئندہ دنوں میں اثر نظر آئے گا۔
احسن بھون نے کہا کہ عمران خان اور چوہدری شجاعت حسین کے ممبران کی ووٹنگ کیلئے لکھے گئے خطوط بالکل ایک جیسے ہیں، ہم چاہتے ہیں سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے، ریاست پاکستان کو عوام کے نمائندوں نے ہی چلانا ہے، کچھ نمائندے جمہوری نظام کو فیل کر رہے ہیں۔