28 جولائی، ہیپاٹائٹس کا عالمی دن
تحریر: بابر شہزاد تُرک
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 28جولائی کو التہاب جگر یعنی ہیپاٹائٹس سے بچاﺅ اور تحفظ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، یہ دن ڈاکٹر بلوم برگ کی تاریخ پیدائش والے دن منایا جاتا ہے جنہوں نے 1967میں ہیپاٹائٹس بی کا وائرس دریافت کیا اور 2 سال بعد اُنھوں نے اِس حوالے سے پہلی ویکسین بھی تیار کی.
ہیپاٹائٹس کی اقسام اور حفاظتی اقدامات
پاکستان کے معروف گیسٹروانٹرولوجسٹ اینڈ ہیپٹالوجسٹ ڈاکٹر معاذ بن بادشاہ کے ساتھ ہمارے نمائندے بابر شہزد ترک نے طویل نشست رکھی اور ہیپاٹائٹس کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں موجود مختلف سوالات پوچھے ساتھ ہی احتیاطی و حفاظتی تدابیر بھی جاننے کی کوشش کی تو اُنہوں نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی سب سے عام اقسام اے، بی، سی، ڈی اور ای ہیں جو مخصوص وائرل انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی کے انفیکشن اگر بگڑ جائیں تو وہ جگر کے کینسر میں تبدیل ہو سکتے ہیں، عام طور پر یہ مرض وائرل انفیکشن سے لاحق ہوتا ہے مگر اِس کے کئی دوسرے اسباب بھی ہو سکتے ہیں مثلاً شراب نوشی، غیر محفوظ انتقالِ خون، متاثرہ سرنج سے انجکشن لگوانا، غیر محفوظ اوزار سے کان چھدوانا، اتائی ڈاکٹرز، دندان ساز اور غیر محفوظ جنسی تعلقات وغیرہ، وائرل ہیپاٹائٹس کی کئی اقسام ہیں، جیسے ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای، اِن تمام اقسام کے اسباب اور وائرس ایک دوسرے سے مختلف ہیں, ہیپاٹائٹس اے اور ای کی نوعیت شدید ہوتی ہے مگر دورانیہ مختصر ہوتا ہے, اِن کی بڑی وجہ آلودہ پانی اور خوراک ہے، ہیپاٹائٹس بی سی ڈی اور زیادہ خطرناک اور طویل المدت ہے، یہ حاملہ خواتین اور بچوں کے لئے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں، اس مرض کے علاج کا انحصار اس بات پر ہے کہ مریض کو کس قسم کا وائرس لاحق ہے.
ہیپاٹائٹس دنیا بھر کیلئے خطرہ
دنیا بھر میں 300 ملین سے بھی زائد لوگ ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں جبکہ وفاقی وزارتِ قومی صحت کے ترجمان ساجد حسین شاہ کے مطابق پاکستان میں اِس وقت ہیپاٹائٹس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 98 لاکھ ہے، بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں اوسطاً ہر 20 منٹ میں ہیپاٹائیٹس سے ایک شہری جاں بحق ہوتا ہے.
ہیپاٹائیٹس کے پھیلاؤ کی وجوہات، علامات اور علاج
عالمی طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائیٹس جگر کی سوزش و ورم کی حالت ہے، جس میں دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کے مریض مبتلا ہیں، اِس کی سب سے عام وجہ وائرل انفیکشن ہے، ہیپاٹائٹس کی دیگر ممکنہ وجوہات میں آٹو امیون ہیپاٹائٹس اور الکحل، ادویات، منشیات اور زہریلے مواد کے نتیجے میں پھیلنے والا ہیپاٹائیٹس شامل ہے، آٹومیمون ہیپاٹائٹس اُس وقت ہوتا ہے جب جسم جگر کے ٹشو کے خلاف اینٹی باڈیز بناتا ہے جبکہ وائرل ہیپاٹائٹس کی 5 اقسام ہیں جن میں ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای شامل ہیں، ہر ایک مختلف قسم کے وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد قوتِ مدافعت کی کمی سے بھی ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہو جاتے ہیں تاہم ہیپاٹائٹس ڈی اُن لوگوں کو ہوتا ہے جنہیں ہیپاٹائٹس پہلے بھی ہوا ہو، ہیپاٹائٹس اے اور بی کے ٹیسٹ کرواتے رہنا چاہیئے ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص اور علاج ممکن ہے، 3سے6ماہ میں 95فیصد مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں، ہیپاٹائٹس سی کا علاج باقاعدگی سے ہو تو شفاء ممکن ہے طبی ماہرین نے بتایا کہ فضلہ سے آلودہ پانی، استعمال شدہ انجکشن سرنج، شیو کے اوزار کا دوبارہ استعمال نہ کریں جبکہ خواتین کو حمل کے دوران یہ بیماری ہو سکتی ہے جبکہ غیر ضروری انجکشن لگوانے، انتقال خون، استعمال شدہ آلات، متاثرہ ماﺅں سے بچوں کو اور گردے کی صفائی والے مریضوں کو لاحق ہو سکتا ہے اس لیے پانی ابال کر استعمال کریں اور ایسی چیزوں سے بچیں جس سے یہ پھیلتا ہے ان کا کہنا تھا کہ تھکاوٹ، آنکھوں اور جلد کا پیلا پن ہو تو ڈاکٹر سے فوراً رجوع کریں اور ٹیسٹ ضرور کروائیں
ہیپاٹائیٹس کیسے پھیلتا ہے؟
ہیپاٹائٹس اے عام طور پر اس وقت پھیلتا ہے جب کھایا جانے والا کھانا یا پانی ہیپاٹائٹس اے سے متاثرہ کسی شخص کے فضلے سے آلودہ ہوتا ہے، ہیپاٹائٹس بی اُس وقت پھیلتا ہے جب کوئی جسم متعدی جسمانی رطوبتوں کے ساتھ رابطے میں آتا ہے جس میں ہیپاٹائٹس بی وائرس (HBV) ہوتا ہے، ہیپاٹائٹس سی اس وقت پھیلتا ہے جب کوئی جسم متاثرہ جسمانی رطوبتوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہوتا ہے خاص طور پر جنسی رابطے اور انجیکشن منشیات کے استعمال کے ذریعے جبکہ ہیپاٹائٹس ڈی اس وقت لاحق ہوتا ہے جب متاثرہ خون سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ یہ ہیپاٹائٹس اس وقت ہوتی ہے جب جسم ہیپاٹائٹس بی سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ ہیپاٹائٹس ڈی وائرس ہیپاٹائٹس بی وائرس کی موجودگی کے بغیر بڑھ نہیں سکتا، ہیپاٹائٹس ای ایک پانی سے پھیلنے والی بیماری ہے اور یہ بنیادی طور پر ان علاقوں میں پائی جاتی ہے جہاں پانی کی سپلائی پاخانہ کے مادے سے آلودہ ہوتی ہے اور صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال دیکھی جاتی ہے۔جب الکحل کا زیادہ استعمال ہوتا ہے تو یہ جگر کے خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے جس سے جگر کو مستقل نقصان ہوتا ہے جیسے کہ جگر کی خرابی یا سروسس اور اسے الکحل ہیپاٹائٹس کہا جاتا ہے۔ کچھ ادویات پر ردعمل بھی ہیپاٹائٹس کا باعث بن سکتا ہے
ہیپاٹائیٹس کی عام علامات اور علاج
ہیپاٹائٹس کی عام علامات میں بھوک میں کمی،اچانک وزن میں کمی،پیلا پاخانہ،سیاہ پیشاب،فلو کی علامات،تھکاوٹ،پیٹ کا درد،پیلی جلد اور آنکھیں یرقان کی علامت کے طور پر ظاہر ہو سکتی ہیں۔ہیپاٹائٹس اے اور ہیپاٹائٹس ای قلیل مدتی بیماریاں ہیں، جبکہ ہیپاٹائٹس بی، سی، ڈی بیماری کی طویل اور دائمی اقسام ہیں۔ ہیپاٹائٹس ای عام طور پر خود کو محدود کرتا ہے لیکن حاملہ عورت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ آگہی کی کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اس مہلک وائرل انفیکشن سے اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ ہیپاٹائٹس قابل علاج ہے مگر جب صحیح وقت پر علاج کیا جائے۔ لوگوں کو ہیپاٹائٹس کے بارے میں شعور بیدار کرنے کا عہد کرنا چاہیے اور لوگوں کو ٹیسٹ کروانے اور صحیح وقت پر صحیح تشخیص اور علاج کروانے کی ترغیب دینا چاہیے۔ ویکسین اس بیماری کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ہیپاٹائٹس اے اور بی کی نشوونما کو روکنے کے لیے دستیاب ہیں ۔ اس لیے ہیپاٹائٹس کے اس عالمی دن پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہیپاٹائٹس کی روک تھام، تشخیص اور علاج کی حوصلہ افزائی کریں گے، ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی مدد کریں گے اور اپنے ماحول کو محفوظ بنائیں گے
پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کیلئے خوشخبری
پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کیلئے خوشخبری ہے کہ وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت ڈاکٹر مختار احمد بھرتھ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کا پروگرام جلد شروع کیا جارہا ہے، پروگرام کا 68 ارب کا پی سی ون منظور ہو چکا ہے ، ہیپاٹائٹس کے خاتمے کا پروگرام وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے شروع کیا جارہاہے، ڈاکٹر مختار احمد کے مطابق آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام بھی علاج کی سہولت سے مستفید ہوں گے، ہیپاٹائٹس سی کے خاتمہ کو یقینی بنانے کیلئے وزیر اعظم نیشنل ٹاسک فورس کی سربراہی کریں گے، ملک بھر میں 12 سال سے زائد عمر کی آبادی کی سکریننگ ہو گی، سکریننگ میں مثبت پائے جانے والوں کی تصدیق کے لیے ٹیسٹ کیے جائیں گے، ہیپاٹائٹس سی ٹیسٹ مثبت پائے جانے والوں کا مفت علاج ہو گا، وفاقی حکومت پروگرام پر عمل درآمد کیلئے پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ بنائے گی، ایک مربوط حکمت عملی تشکیل دی گئی ہے، صحت کے شعبے میں پڑے پیمانے پر اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے.