فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل پر فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بنچ سماعت کررہا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس یحیی آفریدی،جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں
Stay tuned with 24 News HD Android App
(امانت گشکوری)فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ،وکلا کے دلائل ،پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی گئی ۔سپریم کورٹ نےفوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل پر فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی ۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بنچ سماعت کررہا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس یحیی آفریدی،جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے، عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔جس پرچیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئےہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آئی،اچھے دلائل کو ویلکم کرتے ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے، فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے ،جس پراٹارنی جنرل نےجواب دیاابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔اٹارنی جنرل نے سویلینز کے ٹرائل شروع ہونے کی وضاحت کر دی۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نےکہا کہ آئی ایس پی آر نے 102 افراد کے ٹرائل کی بات کی، اٹارنی جنرل اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے متضاد بیانات ہیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، عدالت میں وزارت دفاع کے نمائندے موجود ہیں وہ بہترصورتحال بتاسکتے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں اٹارنی جنرل کے بیان پر یقین ہے۔
سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا: وکیل عمران خان
عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میرا موقف ہےکہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا، فوجیوں کے ٹرائل اور عدالت کے اختیارات سے متعلق بات نہیں کروں گا، کیا کوئی جرم آرمی ایکٹ کے اندر آسکتا ہے یا نہیں یہ الگ سوال ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ افواج سے متعلق جرائم پر ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ججزکی تقرری کا آرٹیکل 175(3) 1986 میں آیا، جن عدالتی نظائرکی بات آپ کر رہےہیں ان کے مقابلےمیں اب حالات و واقعات یکسر مختلف ہیں۔ جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ ایسا کیا ہے جس کا تحفظ آئین فوجی افسران کو نہیں دیتا لیکن باقی شہریوں کو حاصل ہے؟
وکیل عزیربھنڈاری کا کہنا تھا کہ فوجی جوانوں اور افسران پر آئین میں درج بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے، فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتی، 21 ویں آئینی ترمیم میں اصول طےکیا گیا کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا؟ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اندرونی تعلق کے بارے میں جنگ اور دفاع کو خطرات جیسے اصول 21 ویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا سویلین کا افواج سے اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟
’فوجی عدالتوں میں جاری کارروائی فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے‘
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع ہونےکی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کسی سویلین کا ٹرائل نہیں چل رہا، فوجی عدالتوں میں ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس کے مطابق سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا ہے، عدالتی نظائر کے مطابق اگر سویلین کے افواج میں اندرونی تعلقات ہوں تب فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے،کون طےکرتا ہےکہ سویلین کے اندرونی تعلقات ہیں لہٰذا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا؟جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس کے مطابق سویلین کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل جنگی حالات میں ہوسکتا ہے، جنگی حالات نہ ہوں تو سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نےکہا کہ اٹارنی جنرل ملزمان کی حوالگی سے متعلق بتائیں کہ کون سا قانون استمال کیا جا رہا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کی حوالگی سے متعلق 2 ڈی ون کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات ہےکہ ہمارے پاس آفیشل سیکرٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں، ہوا میں باتیں کی جا رہی ہیں، 2 ڈی ون کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں؟ عدالت کی معاونت کریں۔جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل کی اجازت کے صوابدیدی اختیار کا استعمال شفافیت سے ہونا چاہیے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات ہےکہ ہمارے پاس آفیشل سیکرٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں، ہوا میں باتیں کی جا رہی ہیں، 2 ڈی ون کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں؟ عدالت کی معاونت کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل کی اجازت کے صوابدیدی اختیار کا استعمال شفافیت سے ہونا چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ کسی کخلاف شواہد نہ ہونے پر کاروائی کرنا تو مضحکہ خیز ہے، وکیل عزیر بھنڈاری بولے جو افراد غائب ہیں ان کے اہلخانہ شدید پریشانی کا شکار ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا ہے کہ اٹارنی جنرل سے تفصیلات مانگی تھیں امید ہے وہ والدین کیلئے تسلی بخش ہوں گی، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ آرمی رولز کے مطابق کسی شخص کو پہلے گرفتار کیا جاتا ہے پھر اس کیخلاف تحقیقات یا کاروائی کا آغاز ہوتا ہے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پوچھا کہ کیا آفیشل سیکرٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ جی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے،پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کاذ کر ہی نہیں ہے،آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کے ذریعے تحفظ پاکستان ایکٹ کو ضم کرکے انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں،2017 میں ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشتگردی کی دفعات کو شامل کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سقم قانون میں ہے،وکیل عزیز بھنڈاری نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہوئی مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ اٹارنی جنرل صاحب بہت سے حقائق درخواست گزاروں کی جانب سے سامنے آئے،اگر آپ ان حقائق سے اتفاق نہیں کرتے تو عدالت کو آگاہ کریں،جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے پوچھا کہ آپ نے ڈیٹا بھی فراہم کرنا ہے،اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں تمام ریکارڈ اور دستاویزات تحریری طور پر جمع کرا دوں گا، میں نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 73 کے تحت لگے الزامات کی تفصیلات بھی جمع کرانی ہیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پوچھا کہ کیا چارج فریم ہو گیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ چارج فریم نہیں ہوا صرف الزامات کی بنیاد پر جو کاروائی ہوئی اس کی بات کر رہا ہوں، اٹارنی جنرل نے ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کے ناموں سمیت تفصیلات عدالت میں جمع کرا دیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی تحویل میں 102 افراد کو اہل خانہ کو فون کال کرنے کی اجازت دی جائے گی،رابطے کے بعد اہل خانہ متعلقہ حکام سے بات کر کے ہفتے میں ایک بار ملزمان سے ملاقات کر سکیں گے۔
اٹارنی جنرل نے 102 افراد کی لسٹ عدالت کے حوالے کردی
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ آپ نے بیان دیا کہ ملٹری کورٹس میں ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا، اٹارنی جنرل نے بیان دیا کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ دلائل کا آغاز تحریری جواب جمع کرانے پر کریں گے؟ اٹارنی جنرل بولے کہجی دلائل کا آغاز تحریری جواب کے بعد کروں گا، جیل میں ان 102 افراد کو پڑھنے کیلئے کتابیں مہیا کی جائیں گی، جیلوں میں قیدیوں کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جائےگا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ آپ کبھی اڈیالہ جیل گئے ہیں؟ اڈیالہ جیل میں کھانے پینے کا پورا ہفتے کا شیڈول ہوتا ہے اس کو دیکھ لیں، جسٹس عائشہ ملک بولیں کہ کیا یہ جو 102 افراد کی لسٹ آپ نے دی یہ پبلک ہوگی؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ درخواست ہے کہ 102 افراد کے نام اور تفصیلات کی لسٹ پبلک نہ کہ جائے، والدین بیوی، بچوں اور بہن بھائیوں کو ہفتے میں ایک بار ملاقات کی اجازت ہو گی ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ میں نے کچھ جیلوں کا دورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے،اٹارنی جنرل بولے کہ ملزمان کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ عام حالات سے کافی بہتر ہے،کھانا محفوظ ہے یا نہیں اس کا ٹیسٹ تو نہیں ہوتا مگر وہ کھانا کھانے سے کسی کو کچھ ہوا تو ذمہ داری بھی شفٹ ہو جائے گی۔
جسٹس عائشہ ملک نے پوچھاکہ کیوں خفیہ رکھا جا رہا کہ 102 ملزمان کون سے ہیں ،کیا ہم 102 افراد کی لسٹ کو پبلک کر سکتے ہیں،جی نہیں ابھی وہ ملزمان زیر تفتیش ہیں۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ آئی سی جے کی رپورٹ میں ملٹری ٹرائل میں سزائے موت کا ذکر بھی تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا کسی کو سزائے موت کی سزا بھی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ
سزائے موت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جب کوئی فارن ایجنٹ ملوث ہو،موجودہ کیسز میں کوئی فارن ایجنٹ ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں اس لیے سزائے موت کی سزا نہیں ہو سکتی۔وکیل لطیف کھوسہ بولے کہ ہم بھی انسان ہیں 25 کروڑ پاکستانیوں کا معاملہ ہے،میرے گھر کی جیو فینسنگ نہ کرائی جا سکی،چیف جسٹس بولے کہ صحافیوں کے غائب ہونے کے معاملے پر وفاقی حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ ان کو ٹریس کرے اور واپس لائے، کیا آپ مسٹر عمران ریاض کی بات کر رہے ہیں؟عمران ریاض کیا حکومت کی کسٹڈی میں نہیں ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عمران ریاض حکومت کی کسٹڈی میں نہیں ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ عمران ریاض کو تمام تر وسائل لگا کر ٹریس کرنے کی کوشش کریں،مجھے فون پر خط موصول ہوا جس میں مجھ پر الزام تھا کہ میں عمران ریاض کیلئے کچھ نہیں کر رہا، اس طرح کی حرکات سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے، ہم اب عید کے بعد ملیں گے،عید کے بعد پہلے ہفتے میں بتائیں گے کہ کیس کی سماعت کب ہوگی،
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ فوری ٹرائل نہیں شروع ہوگا، ہر ایک کا خیال رکھیں،عدالت نے درخواست گزاروں کی فوری حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی،کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔
پیر کی سماعت کا تحریری کارروائی
گزشتہ روز سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت کی تحریری کارروائی جاری کی تھی جو 6 صفحات پر مشتمل تھی،یہ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان نے تحریر کیا۔اس میں کہا گیا ہے کہ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے،اٹارنی جنرل نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھایا، جسٹس منصور علی شاہ کی درخواست گزار جواد ایس خواجہ سے رشتہ داری کو جواز بنا کر اعتراض اٹھایا گیا،جسٹس منصور علی شاہ نے الگ سے اپنا اضافی نوٹ تحریر کیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ تین صفحات پر مشتمل ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا اپنے نوٹ میں لارڈ ہیورٹ کا حوالہ دیا، نوٹ میں کہا گیاہے کہ یہ اہم ترین بات ہے کہ نہ صرف انصاف ہو بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے، اس معاملے کی اہمیت کے پیش نظر فل کورٹ بنایا جانا چاہئے تھا، آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے بینچ میں میری موجودگی پر اعتراض اٹھایا، میں ان خیالات کا اظہار پہلے بھی متعدد بار کر چکا ہوں، عدالتی نظام میں عوام کا اعتماد سب سے بنیادی نقطہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اضافی نوٹ میں کہا کہ زیر سماعت درخواستوں میں ایک درخواست گزار جسٹس جواد ایس خواجہ بھی ہیں، ہر اس چیز سے گریز ضروری ہے جس سے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچے، عوام کا اعتماد ہی عدالتی فیصلوں کو قانونی جواز دیتا ہے، جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں ، اس بات کا علم عدالتی نظام سے جڑے ہر شخص کو ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینزٹرائل کیخلاف کیس ،سپریم کورٹ نے سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا
نوٹ میں مزید کہا گیاہے کہ سماعت کے آغاز پر پوچھا کیا کسی کو میرا اس مقدمے کو سننے پر اعتراض تو نہیں ، اٹارنی جنرل سے بھی پوچھا کہ انہیں مجھ پر اعتراض تو نہیں ، جن کو علم نہیں تھا انکو بھی سماعت کے آغاز پر اوپن کورٹ میں یہ بات بتائی، اٹارنی جنرل نے کہا میری بینچ میں موجودگی پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ، ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ کہتا ہے کہ منصف ایسے مقدمات نہ سنے جس میں اسکی ذاتی دلچسپی ہو، میرا موقف تھا کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل کا اطلاق اس کیس پر نہیں ہوتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں مزید کہا ہے کہ یہ ججز کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کا تحفظ اور دفاع کریں، بینچ سے از خود علیحدگی اس لیے نہیں چاہتا تھا کہ کسی اعتراض کے بغیر ایسا کرنا درست نہ ہوتا، جواد ایس خواجہ کی درخواست انکے ذاتی مفاد نہیں بلکہ مفاد عامہ کا معاملہ تھا، موجودہ کیس آئینی لحاظ سے نہایت اہم اور مفاد عامہ کا ہے،بنیادی انسانی حقوق ،زندگی،آزادی،آبرو اور فئیر ٹرائل کا معاملہ عدالت کے سامنے ہے، فل کورٹ نہ بنائے جانے پر مجھے شدید تحفظات تھے۔
نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں موجود سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا، میں ان تحفظات کے باوجود بینچ کا حصہ بنا اور سماعت جاری رکھی، عدالتی غیر جانبداری عوامی اعتماد کیلئے ضروری اور فئیر ٹرائل کیلئے ناگزیر ہے، عدالتی غیر جانبداری جمہوریت کے تحفظ اور قانون کی عمل داری کیلئے نہایت ضروری ہے، اگرچہ کسی بھی آئینی عدالت میں یہ فیصلہ جج اپنے ضمیر کے مطابق کرتا ہے کہ سماعت کرے یا علیحدگی اختیار کرے۔