موسم اور معیشت کا ساتھ
تحریر: وارث پراچہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے اس کے باوجود بھی انتہائی موسمیاتی اثرات سے وابستہ خطرات نے پاکستان کو متاثر کر ر کھا ہے، ماہرین کا کہنا ہے پاکستان میں کاربن کا سب سے کم اخراج اور نقصان زیادہ ہے ۔ موسمی تبدیلی کے شکار سرفہرست 10 ممالک میں پاکستان کا شمار بھی ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین 27 فیصد حصہ کے ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا محرک اور ماخذ ہے۔ دوسری جانب چین نے ہدف طے کیا تھا کہ گرین ہاؤس گیس کا اخراج 2030ء میں بہت حد تک کم ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ ماضی میں امریکی صدر اوباما کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نے بین الاقوامی سطح پر 2005ء کے مقابلے میں 2025ء تک گرین ہاؤس گیس اخراج میں 26 سے 28 فیصد تک کمی کا نیا ہدف مقرر کیا ہے۔2021ء میں عالمی تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ہے کہ فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے سبب آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہے، بد قسمتی کہ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
وزارت خزانہ کے جاری کردہ 2021-2022 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی زراعت معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ جی ڈی پی میں 19.2 فیصد کا حصہ ڈالتی ہے اور زرِ مبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔
اعداد و شمار کی روشنی میں ملک میں اس وقت 42.6 فیصد لوگوں کو زراعت روزگار مہیا کرتی ہے، 2019ء کے ریکارڈ کے مطابق زراعت کا شعبہ ملک کی مجموعی پیداوار میں تقریباً نصف یعنی 49.4 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پاکستان میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس بنا پر فصلیں اور دیگر مخلوق متاثر ہو رہی ہیں۔یاد رہے کہ 2018ء میں پاکستان نے اپریل کے گرم ترین مہینے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا جب اس کے شہر نواب شاہ(بینظیر آباد) میں درجہ حرارت 50.2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیاتھا۔ورلڈ بینک نے پاکستان کے حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 40 ارب امریکی ڈالر لگایا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 152 انتہائی واقعات کا سامنا کرنا پڑا جہاں گلیشیئر لیک آؤٹ اور برسٹ فلڈز (جی ایل او ایف) میں 300 فیصد اضافہ ہوا۔
گلگت کے ضلع نگر سے تعلق رکھنے والے ماہر ماحولیات ، سیاسی کارکن اور نجومی آغا بہشتی کا کہنا ہے کہ ایک ایسا وقت تھا جب ہم پہاڑوں پر مویشی چرانے جاتے تھے سارے پہاڑ برف سے ڈھکے نظر آتے تھے ، ہمیں تین، چار گھنٹے برف پر چلنا پڑتا تھا۔لیکن اب وہاں برف کا نام و نشان ہی نہیں ملتا، انہوں نے مزید خدشہ ظاہر کیا کہ یہی رفتار رہی موسمی اثرات کی تو اگلے 100 سال میں برف ختم ہو جائے گی اور دریا خشک ہو جائیں گے۔ متنبہ کرتے ہوئے کہا ہمارے ماحولیات پر کام کرنے والے اداروں نے اگر اس پر توجہ نہ دی تو پانی کی اتنی قلت آنے والی ہے کہ ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔
ضرور پڑھیں :خالی شلوار کی کہانی
دریں اثناء اجلاس میں بتایا گیا کہ شدید گرمی کی لہر کا تسلسل سالانہ 41 دن ہو چکا ہے، پاکستان کے کئی شہر مسلسل تین سالوں سے دنیا کے گرم ترین شہروں میں شامل رہے ہیں جہاں درجہ حرارت 53.7 ڈگری تک بڑھ گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے تحت 27 ویں کانفرنس آف پارٹیز (سی او پی) نومبر 2022ء میں مصر میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے خطرات جیسا کہ غذائی قلت، غذائی تحفظ، سطح سمندر میں اضافہ اور آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی میں اضافے پر اپنا مؤقف پیش کیا، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ممالک کی جانب سے مالی امداد کا اعلان کیا گیا لیکن وہ کاغذی کارروائی تک محدود رہا۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود رواں برس پاکستان کو گندم، چینی اور کپاس درآمد کرنے پر کثیر زرِ مبادلہ خرچ کرنا پڑا ہے جب کہ پاکستان خوردنی تیل، دالیں، خشک دودھ اور دیگر اشیاء پہلے ہی بڑی مقدار میں درآمد کرتا ہے۔
اس ضمن میں محققین کی تحقیقات بتاتی ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی فصلیں درجہ حرارت میں اضافے اور پانی کی کمی سے شدید متاثر ہو رہی ہیں اور خطے میں 0.5 ڈگری سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت بڑھنے سے ان کی پیداوار میں 8 سے 10 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
اگر ماضی کی جھلک دیکھیں اقوامِ متحدہ 2014ء میں بھی ایک رپورٹ جاری کر چکا ہے جس کے مطابق قدرتی آفات سے پاکستان کو 1.3 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے، جبکہ 2017ء میں جرمن واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں سے نقصان بڑھ کر 3.8 ارب ڈالرز سالانہ ہو چکا ہے۔
بات مندرجہ بالا نقصان تک اگر محدود رہے تو بھی غنیمت سمجھیں لیکن رپورٹ کے مطابق 2035ء سے 2044ء کے عرصے میں سیلاب سے 50 لاکھ لوگوں کے متاثر ہونے کے خدشا ت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسی طرح 2070 سے 2100 تک ساحلی علاقوں میں سیلابی صورتِ حال سے سالانہ 10 لاکھ لوگوں کے متاثر ہونے کے خدشات کو بیان کیا گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے اور بین الاقوامی میڈیا سے وابستہ صحافی شاہنواز ترکزئی جن کا تعلق پشاور سے ہے کا کہنا ہے کہ وہ مصر میں ہونے والی سی او پی (کانفرنس آف پارٹیز) کانفرنس 2007ء میں موجود تھے جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اگر دنیا کو کاربن کی تباہی سے بچانا ہے تو پھر کاربن پیدا کرنے والی چیزیں جیسا کہ گاڑیاں، ان کو سولر یا الیکٹرک پر لیکرجانا ہوگا ، دریں اثنا دیگر ایسی چیزیں جو گرمی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں ان کو ونڈ یا سولر پر کنورٹ کرنے کی ضرورت ہے،لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سولرائزیشن کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے، اگر ہم سولر یا ونڈ انرجی پر اپنا پاور سسٹم کنورٹ کر لیتے ہیں تو ماحول میں کافی بہتری کی گنجائش ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے زندگ میں پہلی بار سوات میں بڑا سیلاب دیکھا جس کے سبب وہاں ایک ہی روز میں 29 بڑے بڑے پل پانی کے اس ریلے کی نظر ہو گئے ۔
معلومات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا آبائی علاقہ پاکستان کے مغربی بارڈر پر ہے اس سے آگے افغانستان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے، سردیوں میں ان کے ایریا میں روس اور سینٹرل ایشیا سے قیمتی پرندے آتے تھے، جو وہاں کے مقامی لوگ کیلئے وسیلہ روزگار بنتے تھے، وہ لوگ ان پرندوں کو پکڑتے اور مہنگے داموں فروخت کر کے پیسہ کماتے تھے جن کی قیمت 10 سے 15 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ تاہم اب گرمی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ان پرندوں نے آنا بند کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہم خود بھی کمرشل ہوگئے ہیں تھوڑے نفع کیلئے زیادہ نقصان کو ترجیح دیتے ہیں مثال کے طور پر ہم نے کھیتوں میں پاپولر اور سفیدے کے درخت گانے شروع کر دیے ہیں جو براہ راست واٹر لیول کو متاثر کرتے ہیں۔ ہمیں درخت وہ لگانے چاہیے جو زیر زمین پانی کی سطح کو متاثر نہ کریں ۔
ضروری نوٹ :ادارے کا بلاگر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر