چیف جسٹس پاکستان کے از خود نوٹس لینے کا اختیار ریگولیٹ ہونا چاہیے , 2ججز کا اختلافی فیصلہ سامنے آ گیا

Mar 27, 2023 | 17:39:PM

(24 نیوز)پنجاب اور خیبر پختونخوا کےانتخابات میں تاخیر پر از نوٹس کیس پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق 28 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے، جس میں کہا گیا ہےکہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی آفریدی کے 23 فروری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں،پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں،از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے،اختلافی فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ زیر التوا درخواستوں پر 3روز میں فیصلہ کرے۔ 
رپورٹ کے مطابق ججز کے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ  از خود نوٹس کیخلاف 4 اور  3کا فیصلہ دیا گیا،سپریم کورٹ نے 4 اور 3کے تناسب سے درخواستیں مسترد کیں،پاناما کیس میں بھی دوسرے بنچ نے فیصلہ بدل دیا تھا،چیف جسٹس اپنی مرضی کا بنچ تشکیل نہیں دے سکتے،بنچ کی تشکیل اور از خود نوٹس کے رولز میں ترمیم کی جائے،ججز کو انکی مرضی کے برعکس بنچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں۔ 

اختلافی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ 2معزز ججز نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بنچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑا،بینچ سے نکالے جانے والے دونوں ججز کا  فیصلہ اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے، چیف جسٹس کے پاس از خود نوٹس لینے، سپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں،ان اختیارات کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید اور اس کی عزت و تکریم میں کمی ہوتی ہے،اب صحیح وقت ہے ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے، عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی کرتی ہے۔ 

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے  اختلافی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی ہے نہ کہ اس سے جڑے مفادات،ججز کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے، عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اسکی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو، ہائیکورٹس میں کیس زیرالتواء ہونے کے باوجود از خود نوٹس لیا گیا،از خود نوٹس کا دائرہ اختیار غیر معمولی،صوابدیدی اور بہت خاص نوعیت کا ہے، آرٹیکل 184/3 کا دائرہ اختیار بنیادی حقوق کے مقدمات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کے از خود نوٹس لینے کا اختیار ریگولیٹ ہونا چاہیے،عوامی اعتماد کی بحالی کیلئے چیف جسٹس کے ون مین شو کے اختیار پر نظر ثانی لازمی ہے،چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، پوری سپریم کورٹ کو صرف ایک چیف جسٹس کے فیصلے پر نہیں چھوڑا جاسکتا، ون مین شو نہ صرف فرسودہ بلکہ ایک برائی کی مانند بھی ہے،چیف جسٹس کا ون مین شو جدید جمہوری اصولوں کے بھی خلاف ہے،ون مین شو طاقت کے غلط استعمال کا باعث بنتا ہے،ایک شخص کے ہاتھ میں بہت زیادہ طاقت سے ادارے کی خودمختاری غیر محفوظ ہو سکتی ہے،

ایک شخص کے پالیسیوں پر عملدرآمد عوام کے حقوق اور مفاد کے برخلاف ہو سکتا ہے۔ 

ستم ظریفی ہے کہ سپریم کورٹ قومی اداروں کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرتی ہے لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتی،سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا ڈھانچہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے،چیف جسٹس کے پاس بے لگام طاقت ہے جس کا وہ لطف لیتے ہیں،چیف جسٹس کی جانب سے طاقت کے بے دریغ استعمال سے سپریم کورٹ کے وقار میں کمی آتی ہے۔ 

مزیدخبریں