پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی ہے: سپریم کورٹ

May 27, 2023 | 22:36:PM
پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی ہے: سپریم کورٹ
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) جسٹس حسن اظہر رضوی نے پارلیمنٹ کے قانون سازی اختیارات سے متعلق فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی ہے، آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمنٹ کو قانون سازی سے نہیں روکتا۔

 جسٹس حسن اظہر رضوی کا فیصلہ سپریم کورٹ ویب سائیٹ سے ہٹا دیا گیا۔ جسٹس حسن رضوی نے فیصلہ لین دین کے ایک مقدمہ میں تحریر کیا۔ دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جمال مندوخیل نے آرٹیکل 199 میں انٹرا اپیل کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوانے کی سفارش کی تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کے فیصلے پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے اختلافی نوٹ لکھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے قانون کی جوڈیشل اسکروٹنی کا اختیار ہے، اعلی عدلیہ کو قانون کی جوڈیشل اسکروٹنی کے اختیار سماعت پر تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اعلی عدلیہ کو جوڈیشل اسکروٹنی کا اختیار ایسے استعمال کرنا چاہیے جس سے عدلیہ مقننہ ایگزیکٹیو میں ہم آئنگی برقرار رہے، جوڈیشل نظرثانی کا اختیار تحمل اور دانشمندی سے استعمال کیا جانا چاہیے۔

 جسٹس حسن اظہر رضوی نے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اعلی عدلیہ اور پارلیمنٹ میں جنگ شروع کرنے والی جوڈیشل اسکروٹنی کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے، ریفارمز آرڈیننس 1972 کو 73 کے آئین میں قانونی تحفط فراہم کیا گیا، ریفارمز آرڈینس کے تحت آرٹیکل 199 کے ہائیکورٹ کے آئینی اختیار میں اپیل کا حق دیا گیا، ریفارمز آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر 50 سال گزرنے کے باوجود سوال نہیں اٹھایا گیا۔

 فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق عدلیہ کو قانونی سوالات کے حل سے گریز کرنا چاہیے، اپنے ساتھی جج جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلہ سے اتفاق نہیں کرتا، قانونی نقطہ کی تشریح کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوانے کی ضرورت نہیں۔