لاپتہ افراد کیس،ریاست کسی بندے کو اٹھا لے تو لوگ کہاں جائیں؟ پشاور ہائیکورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) پشاور ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ریاست لوگوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے ،اگر سٹیٹ کسی بندے کو اٹھا لے تو بندے کیا کریں اور کہاں جائیں؟۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور نے حیات آباد سے 4 بھائیوں کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کی، عدالت نے پولیس کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی پیشرفت رپورٹ آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا،جسٹس اعجاز انور نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سٹیٹ اگر ایسا کام شروع کرے تو لوگ پھر کہاں جائیں؟ کاروباری افراد کے اغوا کے ذمہ دار سی سی پی اور ایس ایس پی ہیں، اغو کار صرف سہولت کار ہیں، یہ معاملہ انکا گھریلو لگتا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سٹیٹ نے پولیس کمیٹی بنائی ہے اور بھرپور تحقیق کر رہی ہے، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اے جی صاحب کبھی ایسا ہوا ہے کہ کمیٹی بنی ہو اور مسائل کا حل نکلا ہو، جب تک ایگزیکٹو آئین پرعمل نہیں کرے گا تو اس ملک میں اسی طرح ہو گا، ایجنسیز کو آئین کے اندر کام کرنا ہو گا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ معاملہ ان کا اندرونی ہے، بیرسٹر اویس بابر نے کہا کہ معاملے میں ان کا اپنا بھائی ملوث ہے، پولیس کی سرپرستی میں نقاب پوشوں نے رات 2 بجے میرے کلائنٹس کو میرے سامنے اغوا کیا۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں لوگوں تحفظ دینے میں سٹیٹ مکمل ناکام ہو چکی، خیبر پختونخوا سے 98 فیصد کاروباری افراد نے کاروبار چھوڑ دیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت 10 جون تک ملتوی کر دی۔