تحریر (عامر رضا خان )تنور پہ کھڑا ادھیڑ عمر شخص اتوار کے روز اپنے بچوں کے لیے کلچے چنے لینے آیا تھا لیکن اب تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا تھا تنور مالک اور ملازمین اسے کہہ رہے تھے کہ لاؤ نکالو حقیقی آزادی ، پھر پبھتی کسی کہ نس گیا نیازی تو مزاق کا سامنا کرنے والا مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولا خان بھاگا نہیں ہے اب باہر جائے گا اور وہاں سے زیادہ مضبوط ہوکر آئے گا چھا جائے گا دو تہائی اکثریت حاصل کرئے گا کیوں بھائی آپ انہیں سمجھائیں ، اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے اپنے کلچے اٹھائے یہ جا وہ جا لیکن اس کے جانے کے بعد میں نے تنور مالک کو کہا ملک صاحب کیوں اس بیچارے کا مزاق بناتے ہیں ، تنور مالک نے بتایا کہ جناب اس نے ایک ماہ سے زائد عرصے سے ناک میں دم کیا ہوا تھا کبھی کہتا تھا کہ خان نے بول دیا ہے اب حقیقی آزادی ملے گی امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے لیکن جب چند بعد دن بعد ہی وزیر آباد میں عمران خان صاحب پر حملہ ہوا تو یہ جزباتی باقائدہ سینہ کوبی کرتا ہماری دکان پہ آیا انقلاب انقلاب کا نعرہ لگایا اور رونے لگا کہتا تھا خان کے خون کے ہر قطرے کا حساب لیا جائے گا ہم سب شہادت کے لیے تیار ہیں انقلاب کو جو خون درکار تھا وہ خان نے بہادیا سینے پہ گولی کھائی ہے جب ہم نے کہا کہ کیا خان صاحب کا سینہ ران سے نیچے ہے تو اس نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہمیں پٹواری ، بھارتی ایجنٹ اور غدار کہہ دیا لیکن ہم چپ رہے ۔
لیکن جی چند دن بعد جب " مانے پلستر" نے ( یہ تندور مالک کے الفاظ ہیں میرے نہیں ) امریکہ کی حمایت کا اعلان کیا تو اس نے آکر کہا دیکھا کیسا زبردست پتہ کھیل گیا ہمارا کپتان امریکہ نال یاری لگا لی جو اسے یوٹرن کہے گا وہ غدار صاحب جی پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ خان صاحب کی دو تین انگریزی (شائد وہ جرمن ، ترک اور امریکی میڈیا کو ایک ہی لائن میں کھڑا کر رہا تھا ) چینلز نے بینڈ بجا دی ایک گاہک نے ہمیں مزے لے لے کر بتایا کہ میموں نے خان سے ثبوت مانگے تو مانا پلستر ادھر ادھر کی ہانکتا رہا سر جی یہ پھر بھی نہیں مانا اور اس نے سوال کرنے والوں کو بکاؤ اور نواز شریف کے بکاؤ ایجنٹ کہا اور کہا کہ خان اسلام آباد جا رہا ہے ایک ایک کو دیکھ لے گا اب انقلاب کو کوئی نہیں روک سکتا ہم اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور ہنڈی والوں کو بھی بھگا دیں گے لیکن ہوا کیا مانے نے پھر پینترا بدلا اور اسٹیبلشمنٹ کو حکومت گرانے کے الزام سے بری کیا یہ پھر آیا اور ہمیں بتایا کہ اب خان صاحب کی ڈیل ہوگئی ہے آرمی چیف جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور اور وزیر اعظم عمران خان ہم نے یہ بھی سن لیا لیکن پھر تو اس نے حد ہی کردی میرے دو کاریگروں کو بتایا کہ ہمارے علاقے کا ایم پی اے فی بندہ 1500 روپے علاؤہ کھانا دے رہا ہے صرف جانا ہے خان کی تقریر سننی ہے اور واپس ، باؤ جی کاریگروں نے تو اپنے گھر والوں کو بھی بلالیا بس آئی اور اس میں بیٹھ چلے گئے میں آدھا کام خود کر رہا ہوں ۔
میں اس کی باتیں سن چکا تھا لیکن خاموش رہا؛ کہا استاد جی نان ہلکی آنچ پر پکائیے زیادہ تل لگائیے اور بندوں کا مزاق نہ اڑائیں ملک بولا باؤ جی آج صبح یہ آیا تو مایوس تھا چہرہ لٹکا ہوا اور آنکھیں شرمندہ شرمندہ بولا ساری رات کا جاگا ہوا ہوں عمران خان نے جو کارڈ اب کھیلا ہے یہ آخری کارڈ ہے اگر اسمبلیاں توڑ کر بھی کچھ نہ ہوا تو خان کو سیاسی نقصان ہوگا اس پر بات شروع ہوئی میرے کا دیگر نے آواز لگا "نس گیا نیازی " بس یہ پھر بولنا شروع ہوا اور آپ آگئے باؤ جی یہ بڑا پکا یوتھیا ہے لیکن اب مایوس ہے اپنے کپتان کی طرح ، میں نے مزید تبصرہ مناسب نہ سمجھا اور وہاں سے اپنے گرما گرم نان لیکر چلا آیا میں سوچ رہا تھا اس بار خان صاحب نے سب سے بڑی زیادتی اپنے ورکروں سے کی ہے وہ اب کس منہ سے بحث کریں گے کیا بیانیہ بنائیں گے قومی اسمبلی سے نکل کر قومی سیاسی میدان سے نکلے اور اب کے پی کے اور پنجاب سے بھی چلے جائیں گے ان ورکروں اور افسروں کا کیا ہوگا جو خان صاحب کے عشق میں ان کی ٹانگ کے اترے پلستر کے بھی بوسے لیتے رہے ہیں جو گھنٹوں خان صاحب کی ناقص کارکردگی کا دفاع کرتے رہے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کو ننگی گالیوں کا پلیٹ فارم بنائے رکھا اور اس کام کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ پنجاب اور کے پی کے سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں حکومتیں نہ رہیں تو خرچہ پانی بند ہو جائے گا ، پرویز الہیٰ اور مونس الٰہی کا کیا ہوگا وہ تو سیاسی یتیم ہوجائیں گے ۔
عمران خان تو فٹبال کے اس کھلاڑی کی طرح نکلے جس نے پورا زور لگا کر اپنی ہی گول پوسٹ میں گیند پھینک دیا تھا اور پوچھنے پر بتاتا کہ مخالف ٹیم گول کرنے ہی نہیں دیتی اس لیے میں نے اپنے ہی گول پوسٹ میں گیند پھینک دی ،ترس آرہا ہے محمود خان اور پرویز الہیٰ پر دونوں ہاں کریں تب مریں نہ کریں تب
میاں محمد بخش صاحب نے کہا تھا