بلوچ قوم جتنی محبت کرنے والی، جتنی مہمان نواز، جتنی محنت کش، جتنی مظلوم اور جتنی غیرت مند اور جتنی وفادار ہے اسے بار بار اتنے ہی بے وفا، ہڈ حرام اور ظالم و جابر قسم کے لیڈروں سے واسطہ پڑتا رہا ہے، عظیم بلوچستان کے عظیم عوام پہلے صدیوں تک ہڈ حرام اور ظالم و جابر قسم کے سرداروں اور نوابوں کے چنگل میں پھنسے رہے جو خود تو کوئی کام نہیں کرتے تھے لیکن اپنے قبیلے کے عوام محنت کی کمائی اور اپنے علاقے کی معدنیات و چراگاہوں کی دولت لوٹ کر اندرون و بیرون ملک انتہائی پرتعیش زندگی بسر کرتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد جب سے بلوچستان بھیڑیئے جیسے خونخوار عالمی استعمار اور لومڑی جیسے مکار ہمسایہ ملک ہندوستان کی مشترکہ سازشوں کا نشانہ بنا ہے بلوچستان اور اس کے عوام کا استحصال کرنے والا طبقہ بھی بدل گیا ہے، اب سرداروں اور نوابوں کی جگہ بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی عسکریت پسند تنظیموں کے دہشت گرد کمانڈروں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مکار لومڑی جیسی قیادت نے لے لی ہے، یہ نیا استحصالی طبقہ بھی سرداروں کی طرح ظالم و جابر اور ہڈحرام تو ہے ہی، ساتھ میں انسانی خون کا پیاسا اور انتہائی وحشی و سفاک بھی ہے، انسانی خون، انسانی گوشت اور لاشوں کی تجارت کے ذریعے اس نے بلوچستان کی جنت نظیر وادیوں ، پہاڑوں ، دریاؤں ، صحراؤں اور سرسبز چراگاہوں کو جہنم اور دوزخ بنا کر رکھ دیا ہے، اس نئی نام نہاد لیڈر شپ کے کرتوت دیکھ کر بلوچستان کے لوگوں کو اب وہ پرانے سردار اچھے لگنے لگ گئے ہیں جو عوام کے معاشی استحصال تک محدود تھے اور بم بارود و دہشت گردی کی فصل کاشت کرکے بلوچ نوجوانوں کو خودکش بمبار نہیں بنایا کرتے تھا، انہیں فراری کیمپوں میں نہیں دھکیلا کرتے تھے، دہشت گردی کے ٹریننگ سینٹرز میں نہیں بھجوایا کرتے تھے، دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے ڈالر لے کر انہیں "را" ، "خاد" اور این ڈی ایس کو نہیں بیچا کرتے تھے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین کے سی پیک پراجیکٹ کی وجہ سے خوشی اور خوشحالی بلوچستان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، عظیم دوست ممالک چین ، ایران، سعودی عرب، کویت، عراق، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور اومان سی پیک کے ذریعے آپس میں کھربوں ڈالر سالانہ کی تجارت کرنا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ ممالک چین کی مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ساتھ تجارت بڑھانے کیلئے بلوچستان میں بندرگاہوں، ریلوے لائنوں، پائپ لائنوں، شاہراہوں، مینوفیکچرنگ انڈسٹریز، بڑی صنعتوں اور آئل ریفائنریوں کا جال بچھانا چاہتے ہیں، تاکہ ان کی پروڈکشن کاسٹ کم ہو، سی پیک سے جڑی یہ تیز رفتار معاشی سرگرمیاں بلوچستان کو تیزی سے انڈسٹریل ایج میں داخل کر دیں گی اور وہ ایک بڑا جمپ مار کر پسماندہ خطے سے براہ راست صنعتی دور میں داخل ہو جائے گا، اور یہاں روزگار کے اتنے مواقع پیدا ہو جائیں گے کہ افرادی قوت اور پڑھے لکھے ہنرمندوں کی قلت پیدا ہو جائے گی، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق سی پیک اور اس سے جڑی صنعتی و تجارتی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد پہلے 25 برسوں میں بنگلہ دیش ، انڈونیشیا اور افریقہ سے کم و بیش 50 لاکھ لوگ مستقل روزگار کی تلاش میں بلوچستان کا سفر کریں گے اور بلوچستان بحیرہ عرب کا خوشحال ترین خطہ بن جائے گا۔
اور دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ اگلے 25 برس بھی ہم اسی کشمکش میں گزار دیں جس میں پچھلے 25 بلکہ 75 برس گزر گئے ہیں، اس دہشت گردی کے ناسور سے اگر بلوچستان نجات نہیں پاتا تو اگلے 25 برس بھی بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسے عسکریت پسند گروپوں کے بھیڑیئے جیسے خونخوار دہشت گرد لیڈر اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لومڑی جیسی مکار و عیار قیادت کے ہاتھوں ہم یرغمال بنے رہیں گے، بم بارود و دہشت گردی کی فصل کاشت کرکے بلوچ نوجوانوں کو خودکش بمبار بنانے کا سلسلہ بھی پچھلے 25 برسوں کی طرح اگلے 25 برس بھی جاری رہے گا، بلوچ بچوں اور نوجوانوں کو سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھجوانے کی بجائے فراری کیمپوں میں دھکیلنے کا سلسلہ جاری رہے گا، دہشت گردی کے ٹریننگ سینٹرز کے دوزخ و جہنم کی آگ کا ایندھن بنایا جاتا رہے گا، دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے ڈالر لے کر انہیں "را" ، "خاد" اور این ڈی ایس کو بیچنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اب فیصلہ بلوچ عوام نے خود کرنا ہے کہ سی پیک اور تیز رفتار معاشی سرگرمیوں کے ذریعے انہوں نے اپنی جنت جیسی سرزمین عظیم بلوچستان کو خوشی و مسرت اور ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بنانا ہے یا بی ایل اے، بی ایل ایف اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ہاتھوں میں کھیل کر اپنے پیاروں کے بے وقت بچھڑنے کے دکھ، غم، کرب اور مصیبتوں کے ساتھ ساتھ غربت اور بیروزگاری کی دلدل میں دھنسے رہنا ہے،بلاشبہ دنیا کے کسی خطے، کسی مذہب یا کسی رنگ نسل کے ماں باپ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنیں یا دہشت گرد گروپ ڈالر لے کر ان کے بچوں کی زندگیاں اور جسم و جاں خودکش بمبار بننے کی راہ پر ڈال دیں، اس لیے بلوچستان کی محبت کرنے والی عظیم مائیں اور محنت کش عظیم باپ بھی بلاشبہ یہ نہیں چاہتے، اس لیئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ سب اس مثبت سوچ رکھنے والوں کے ہاتھ مضبوط کریں، ضلعی و تحصیل سطح کی بلدیاتی سیاست ہو یا صوبائی اور قومی سطح کی ملکی سیاست وہ ایسے لوگوں کے دست و بازو بنیں جو بلوچستان کو خانہ جنگی کے دوزخ و جہنم سے نکال کر خوشی و خوشحالی کی جنت بنانا چاہتے ہیں، اپنے بچوں پر خصوصی نظر رکھیں کہ کہیں وہ ڈالروں کے بدلے میں جسموں کی تجارت کرنے والوں کے مقامی سہولت کاروں اور ایجنٹوں کے ساتھ اٹھ بیٹھ تو نہیں رہے، مثل مشہور ہے کہ "گربہ کشتن روزِ اول" ۔
بلوچ والدین کو اس حوالے سے تھوڑا بہت بھی شک پیدا ہو تو وہ اپنے بچوں کو پیار سے سمجھائیں، اور اگر دیکھیں کہ بچہ کچھ زیادہ ہی ان مکاروں و خرکاروں کے ذہنی حصار میں چلا گیا ہے تو انسانی جسموں کی تجارت کرنے والے ان ایجنٹوں کی چپکے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خفیہ نشاندہی کرکے اپنے بچوں کو دہشت گردی کے جہنم کا ایندھن بننے سے پہلے پہلے بچا لیں، جب آپ کے علاقے کے یہ ایجنٹ و سہولت کار خود بے نقاب ہو جائیں گے تو وہ نوعمر ذہنوں کو ورغلانے کے کالے دھندے سے خود ہی باز رہیں گے، یہ بزدل اور مکار لوگ دوسروں کے بچوں کو ہی جانیں قربان کرنے کا درس دیتے ہیں جب اپنی جان پر بنتی نظر آئے تو وطن یا نسل کیلئے قربانی دینے کا یہ سارا پرچار انہیں بھول جاتا ہے۔
بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں نے جب یہ دیکھا کہ عام بلوچ عوام اب اپنے نوجوانوں کی دہشت گرد سرگرمیوں کیلئے بھرتی کے حوالے سے باشعور ہو گئے ہیں تو انہوں نے ایک نئی گیم ڈالی، جس طرح مچھیرے اپنے مچھلی کے شکار کیلئے کانٹے پر چارہ لگاتے ہیں انہوں نے ماہ رنگ بلوچ کی سرکردگی میں ایک نئی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام سے قائم کر دی اور نئی بھرتی کے دھندے میں ایک قدم پیچھے ہٹ کر ماہ رنگ بلوچ کو آگے کر دیا، اس نئی گیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردی کیلئے بھرتی کے عمل سے مردوں کو الگ کر دیا گیا اور یہ خوفناک واردات سادہ لوح عورتوں اور معصوم بچوں پر اپنے شکار کا جال ڈال کر انتہائی خاموشی سے شروع کر دی گئی اور راز اس وقت کھلا کہ جب عوامی ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر بلوچ یکجہتی کمیٹی سماج کے کئی طبقات میں نقب لگا چکی تھی۔
ماہ رنگ بلوچ اگر واقعی بے گناہ لوگوں کے اغوا اور قتل عام کی مخالفت ہوتی تو بی ایل اے اور بی ایل ایف کی طرف سے شعبان سیاحوں کے اغوا، ایرانی آنے جانے والے زائرین کی بسوں پر حملوں، دکی میں کان کنوں کے قتل عام، سربندر/ گوادر میں مزدوروں کے اجتماعی قتل کے لرزہ خیز واقعات کی بھی مذمت کرتیں، ان کیخلاف بھی احتجاجی دھرنے دیتیں اور احتجاجی ریلیوں کا اہتمام کرتیں، لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ وہ خود بی ایل اے اور بی ایل ایف کی پراکسی ہیں، سوال یہ ہے کہ دکی میں قتل ہونے والے کان کن، ایران آنے جانے والی بس کے مسافر اور گوادر کے مزدور کی بھی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ہوتی ہے، ان بے قصور اور معصوم لوگوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے بھی غیر انسانی سوچ رکھنے والے سفاک اور ظالم ہیں، لیکن ماہ رنگ بلوچ ان کی مذمت نہیں کرتیں، کر بھی نہیں سکتیں کیونکہ جو آپ کو ڈالر دیتے ہیں وہ پھر آپ کو کٹھ پتلی کی طرح نچاتے بھی ہیں، اور سرکس کے شیر یا بندر کی طرح آپ کو صرف اسی ناچ کی اجازت ہوتی ہے جس کا "رنگ ماسٹر" اشارہ کرتا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ماہ رنگ بلوچ بظاہر بے گناہ اور مظلوم لوگوں کی آواز بن کر سرگرم ہے لیکن حقیقت میں اس نے مظلوم اور بےگناہ لوگوں کی اصل آواز کو اپنے منفی پروپیگنڈے کے شور کے ذریعے دبا دیا ہے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے دہشت گردوں کا دیا ہوا ایک جھوٹا بیانیہ آگے بڑھا کر اس نے عام بلوچ متاثرین کی یہ اصل شکایت دبا دی ہے کہ ان کے بچوں کو دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بنانے کیلئے فراری کیمپوں اور خود کش بمبار ٹریننگ مراکز میں بھیجا جا رہا ہے۔
عام بلوچ لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنے بیانیہ کو سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر اجاگر کر سکیں یا اس حوالے سے کروڑوں روپے خرچ کر کے کوئی "ماس موومنٹ" شروع کرسکیں، عام بلوچ ماں باپ کی اس کمزوری سے ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کو ایک کھلا میدان خالی مل گیا یوں کوئی مدمقابل نہ ہونے کی وجہ سے اس نے اپنا شیطانی جال دور دور تک پھیلا لیا، عالمی استعمار اور بھارت کی طرف سے چونکہ بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی وائی سی پر مسلسل ڈالروں کی بارش ہوتی رہتی ہے اس لیئے مالیاتی وسائل کی بھی ماہ رنگ بلوچ کو کوئی کمی نہیں، اہم بات یہ ہے کہ اس بڑے مقابلے میں ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کو اس وقت فری ہینڈ ملا رہے گا جب تک پورے بلوچستان کے عوام کی اصل آواز کے جوابی بیانیہ کی نشر و اشاعت کیلئے ویسے ہی بھرپور فنڈز کا انتظام نہیں کیا جاتا، اس حوالے سے بلوچستان حکومت اور حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ دوست عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ایران اور چین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ڈالروں کی ایک "جوابی بارش" کا پکا اور مستقل انتظام کرکے ہی بلوچستان میں حقیقی ترقی اور امن کی سوچ کو "راکٹ کی رفتار" سے پھیلانا ہوگا۔
اب وقت کم اور مقابلہ سخت ہے، بھارت چونکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کا بھی ازلی دشمن ہے اس لیئے اس نے بلوچستان میں دہشت گردی کی آگ لگا کر چین کا یہ کلیدی راستہ مسلسل بلاک کر رکھا ہے، چین، ایران اور عرب ممالک اس عالمی کشمکش میں بلوچستان کے عوام کے فطری اتحادی ہیں، اس لیئے کوئٹہ، کراچی، گوادر، تربت، قلات اور سبی سمیت پورے صوبے میں گراس روٹ لیول پر موجود ورکنگ جرنلسٹوں، انجینئرز، اساتذہ، کاشتکاروں، کان کنوں ،ڈاکٹرز، ٹرانسپورٹرز، محنت کشوں اور منتخب بلدیاتی نمائندوں کی ٹیموں کے چین، ایران اور عرب ممالک کے مطالعاتی دوروں کا اہتمام کیا جانا اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے، ماہ رنگ بلوچ اور اس کی ٹیم اگر آئے روز یورپ کے دورے پر جا سکتی ہے تو بلوچستان کے میڈیا، اساتذہ ڈاکٹرز، انجینئرز، کاشتکاروں، ٹرانسپورٹرز، محنت کشوں اور منتخب بلدیاتی کے نمائندوں کے وفود کو چین ایران ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، کویت ، بحرین، قطر اور اومان کیوں نہیں بھجوایا جا سکتا۔
بلوچستان کے یہ حقیقی نمائندے جب تک اپنی آنکھوں سے دنیا کی ترقی و خوشحالی کو دیکھ کر واپس نہیں آئیں گے اس وقت تک بلوچستان کو اس خوشحال دنیا کا پل بنا کر دوطرفہ ثمرات کی بارش کا حقیقی شعور عظیم بلوچستان کے طول و عرض میں پیدا نہیں ہو گا،جماعت اسلامی کے بانی عظیم اسلامی مفکر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا مشہور قول ہے کہ "سیلاب کا حقیقی مقابلہ اس کے سامنے بندھ باندھ کر نہیں کیا جا سکتا، سیلاب کے مقابلے میں جوابی سیلاب برپا کر کے ہی یہ مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔"
قانون فطرت یہ ہے کہ بندھ تو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے لیکن جوابی سیلاب میں کوئی شگاف پڑنا ممکن نہیں، اور نہ ہی مخالفت سیلاب کسی بھی طرح جوابی سیلاب کو اپنے رنگ میں رنگ سکتا ہے، جس کسی کو بلوچستان میں دہشت گردی اور بے امنی کے اس "پکے علاج" کے بارے میں کوئی شک ہو وہ قرآن پاک میں دریائے نیل سمیت دنیا کے سمندروں کے اس "قانون فطرت" والی آیات مبارکہ پڑھ کر دیکھ لے، یا پھر گوگل سرچ کر کے دریائے نیل ابیض اور دریائے نیل ازرق کے ملاپ کی ویڈیوز دیکھے،جوابی سیلاب والا یہ "قرآنی علاج" ہمارے عرب اور ایرانی دوستوں کی سمجھ میں تو فوراً آ جائے گا، اور چین والے جب دریائے نیل ابیض اور دریائے نیل ازرق کا حوالہ دیکھیں گے تو اس "قرآنی علاج" کی عظمت کے قائل ہو جائیں گے۔
ماہ رنگ بلوچ کے"جادو" کا یہ پکا "قرآنی علاج" ہی اس مسئلے کا مستقل حل ہے، جب ہم نے اپنے چینی، ایرانی اور عرب دوستوں کو جوابی سیلاب والے اس قرآنی علاج پر قائل کرلیا تو بی ایل اے ، بی ایل ایف اور بی وائی سی والے ایک ہی جھٹکے میں اتنے کمزور ہو جائیں گے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قرآنی علاج شروع ہو گیا تو بلوچ یکجہتی کمیٹی کا سارا پروپیگنڈہ پھر سورج کو چراغ دکھانے والی بات بن کر رہ جائے گا، انشاء اللہ ، بہتر یہی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اس قرآنی علاج کی سچائی کو مان لیں، نہیں تو آزما لیں، واللہ اعلم باالصواب ۔