دو ماہ قبل میرے بھائی کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا دس روز بعد معلوم ہوا ڈیڈ باڈی نشتر میں ہے۔نشتر انتظامیہ نے 25 روز بعد ڈیڈ باڈی واپس کی جب ڈیڈ باڈی ملی تو چیل کوے آدھی لاش کھا چکے تھے کیون کے ڈیڈ باڈی کو نشتر ہسپتال کی چھت پر کھلے آسمان تلے رکھا گیا تھا ، ایسا کہنا ہے ممتاز آباد کے رہائشی محمد عثمان کا ۔ صرف محمد عثمان ہی نہیں بلکہ ملتان کے علاقے چوک شاہ عباس کے رہائشی محمد وسیم بھٹہ کا کہنا ہے کے ان کے کزن کی ڈیڈ باڈی کو دو روز تک نشتر ہسپتال کی چھت پر کھلے آسمان کے نیچے دھوپ میں پرندوں کے نوچنے کے لیے رکھ رکھا تھا ، معلوم ہونے پر احتجاج کیا تو احتجاج کے دو روز بعد نشتر نے ڈیڈ باڈی واپس کی۔ ان سمیت بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کے نشتر ہسپتال میں انسانی لاشوں کی بیحرمتی کے واقعات میں نشتر حکام کی سنگین غفلت اور مجرمانہ خاموشی کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر اچھی یے کے اس بار اس مسئلے کو ہائی لائٹ کیا گیا ۔
پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں واقع نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی چھت پر پڑی انسانی لاشوں کا معاملہ سوشل میڈیا کی زینت تب بنا جب وزیراعلٰی پنجاب کے مشیر طارق زمان گجر نے لاشیں ملنے کی شکایت پر معائنے کے لیے نشتر ہسپتال کا دورہ کیا، وہ ممنوعہ علاقے میں گئے سرد خانہ کے دورے کے بعدچھت کے تالے کھوا کر اوپر پہنچے تو چھت پر لاوارث لاشیوں کو پایا ،ان کا کہنا ہے کہ نشتر اسپتال کے دورے کے دوران میں زبردستی سردخانہ اور چھت کھلوائی۔ کیوں کہ مجھے ایک شخص نے کہا تھا کہ اگر نیک کام کرنا ہے، تو سرد خانے چلیں…… جہاں بہت ساری لاشیں تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق 200 لاشیں سرد خانے میں تھیں اور ان لاشوں پرایک کپڑا تک نہیں تھا۔ ہسپتال کی چھت پر 3 تازہ لاشیں اور 35 پرانی لاشیں تھیں، جنھیں گنتی کیا اور ویڈیو بنوائی۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنی 50 سالہ عمر میں پہلی بار ایسا دیکھا کہ لاشوں کو گدھ اور کیڑے کھا رہے تھے۔ کچھ لاشیں ایسی لگ رہی تھیں جو بہت پرانی لگ رہی تھیں۔
نشتر ہسپتال ملتان کی چھت پر لاشوں کی تصاویر اور پریشان کْن ویڈیوز ایک ہفتہ قبل منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پرعام شہریوں اور اس شعبے سے متعلقہ افراد کے زہنوں میں جہاں شدید خوف و ہراس پھیلا وہیں کئی سوالات بھی جنم لے گئے ، کہ یہ کن لوگوں کی لاشیں ہیں؟ بے یار و مددگار کیوں پڑی رہیں؟کس بے حس نے انسانی لاشوں کو پرندوں کے لیے چھوڈ دیا ؟ ، کسی لاش کو اس طریقے سے کیسے پھینکا جا سکتا ہے؟ اور ہسپتالوں میں مردہ خانہ کس لیے ہوتا ہے؟ا ؟ کیا لاشوں کو گدوں اور چیلوں کے کھانے کیلئے چھت پر رکھا گیا تھا؟
ان تمام سوالات کے جوابات کے لیے ہم نے متعلقہ محکموں سے رابطہ کیا ۔
شعبہ اناٹومی کی سربراہ ڈاکٹر مریم اشرف نے وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کو تحریری جواب میں بتایا تھا کہ پولیس کی جانب سے پوسٹ مارٹم کے لیے لائی گئی لاوارث لاشوں کو سرد خانے میں رکھنا ناممکن ہوتا ہے کیونکہ لاشوں کی حالت اس قدر خراب ہوتی ہے کہ انہیں ٹیچنگ کے مقاصد کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا، طبی اصطلاح میں پیوٹریفیکیشن کا عمل مکمل کرنے کے لیے لاشوں کو چھت پر رکھا جاتا ہے اور یہ عمل مکمل ہونے کے بعد لاش کی ہڈیوں کو طلبہ و طالبات کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ہڈیاں نکالنے کے بعد لاشوں کی ایس او پیز کے مطابق تدفین کی جاتی ہے۔
یہ لاشیں خود چھت پر رکھی گئی تھیں: ڈاکٹر سجاد مسعود
اس معاملے پر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ترجمان ڈاکٹر سجاد مسعود کا کہنا تھا کہ یہ لاشیں خود چھت پر رکھی گئی تھیں اور شعبہ اناٹومی کے طلبہ تجربات کے لیے انسانی ہڈیوں کا استعمال کرتے ہیں، لہذا یہ معمول کی بات ہے اور اس پر تنازع نہیں کھڑا کیا جانا چاہیے۔ڈاکٹر سجاد مسعود نے بتایا کہ ’نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی چھت پر لاوارث لاشوں کی تعداد چار تھی۔ قدرتی طور پر خشک کی گئی انسانی لاشیں طلبہ کی پڑھائی کے لیے تجربات میں استعمال ہوتی ہیں۔ڈاکٹر سجاد نے بتایا کہ لاشوں کے بارے میں پہلے سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) ملتان کو اطلاع دی گئی تھی اور تجربات کے بعد لاشوں کی تدفین کے لیے بھی پولیس کو مراسلہ بھجوایا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا: ’لاشوں کو چھت پر جالی سے بند کمروں میں رکھا جاتا ہے اور ٹیچنگ مقاصد کے لیے ان سے ہڈیوں کا حصول بھی قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔ بعدازاں ان لاوارث لاشوں کی محکمہ داخلہ کے ایس او پیز کے مطابق متعلقہ پولیس سٹیشن کے ذریعے تدفین کروائی جاتی ہے۔
ہیڈ آف اناٹومی ڈیپارٹمنٹ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی وضاحت کے مطابق ’ان لاشوں کے گلنے سڑنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان کے جسم سے ہڈیاں الگ کر لی جاتی ہیں جن کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور لاشوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔ اس لیے لاشوں کی بے حرمتی کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر مریم اشرف کے مطابق ہمارے پاس سرد خانہ موجود ہے جس میں لاشوں کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ پولیس لاشیں لاتی ہے جن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا، ان کی شناخت نہیں ہوتی اور وہ نامعلوم ہوتی ہیں۔ ان لاشوں میں گلنے سڑنے کا عمل شروع ہو چکا ہوتا ہے اور انھیں چھت پر کمروں میں رکھا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ لاشوں کو طب کی طالب علموں کی تعلیم و تدریس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ تمام چیزیں وزارتِ داخلہ اور صحت کے محکمے کے قوائد و ضوابط کے مطابق ہوتی ہیں۔‘
دو ہفتے تک لاشوں کی شناخت کا انتظار کیا جاتا ہے:ڈاکٹر مریم اشرف
ڈاکٹر مریم اشرف کا کہنا تھا کے کسی ٹیچنگ ہسپتال میں جہاں میڈیکل کی تعلیم بھی دی جاتی ہو، عام طور پر دو طرح کے مردہ خانے ہوتے ہیں جن میں سے ایک اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کا ہوتا ہے اور ایک فورنزک ڈیپارٹمنٹ کا، جہاں پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔’عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ پولیس جب کسی ایسی لاشیں کو پوسٹ مارٹم کے لیے لاتی ہے جس کی شناخت نہیں ہو پاتی تو پوسٹ مارٹم کے بعد امانتاً یہ لاشیں اِن مردہ خانوں میں رکھ لی جاتی ہیں۔’اگر پولیس میت کے لواحقین کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو لاش اُن کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ مگر ایسی لاشیں جن کی شناخت نہیں پاتی اور لواحقین نہیں ملتے وہ بدستور مردہ خانے میں موجود رہتی ہیں۔انکا کہنا ہے کے قانونی طور پر دو ہفتے تک ایسی لاشوں کی شناخت کا انتظار کیا جاتا ہے جس کے دوران پولیس مختلف ذرائع سے لواحقین تک پہنچنے کی کوشش کرنے کی پابند ہے۔‘
’اس مدت کے بعد ان لاشوں کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم عمومی طور پر ایسی ناقابل شناخت لاشوں کو چار ہفتے تک رکھا جاتا ہے، جس کے دوران لاش کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے کیمیائی طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے اور سٹوریج میں رکھا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایسی لاشوں کی حوالگی کا پورا عمل ہوتا ہے جس میں لکھا جاتا ہے کہ لاش کس نے ہمارے حوالے کی اور میت کی دیگر معلوم معلومات وغیرہ کا اندارج کیا جاتا ہے۔’ہم کم از کم تین سے چار ماہ تک لاش کو محفوظ حالت میں رکھتے ہیں تاکہ اگر اس عرصے میں کسی کی شناخت ہو جائے تو پولیس کی مدد سے لواحقین کو واپس کر دی جائے۔انکا کہنا ہے کے اگر اس مدت میں بھی لاش کی شناخت نہ ہو سکے، تو پھر اسے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے جس میں اس کی ڈائسیکشن (چیر پھاڑ) ہوتی ہے اور طلبا کو جسم کے مختلف اعضا کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔’اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد ہمارا ایک نظام ہے جس کے تحت لاش کی باقاعدہ تدفین کی جاتی ہے۔ کچھ مدت کے بعد لاش کو نکال کر اس کی ہڈیاں بھی تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں جن کو اناٹومی بینک میں محفوظ کیا جاتا ہے۔‘
شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ کے موقف کو اگر درست مان بھی لیا جائے تو بھی لاشوں کی بے حرمتی کا کوئی جواز نہیں ہے، ان لاشوں کو کھلے آسمان تلے رکھنا، ان کی خراب حالت کے باوجود ان کی باقیات کی مناسب طریقے سے تدفین ضروری تھی۔ اصل میں طبی اخلاقیات اور ایس اوپیز یا تو ہیں ہی نہیں یا پھر ان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
اس تمام معاملے کو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے خود سنجیدہ لیا ،جنکی زیر صدارت اجلاس میں صوبائی وزیر سپیشلائزڈ ہیلتھ ڈاکٹر یاسمین راشد کے علاوہ سابق وفاقی وزیر مونس الہٰی، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس فیصل شاہکار، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کیپٹن (ر) اسد اللہ، اسپیشل سیکریٹری اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن اور متعلقہ حکام کی شرکت ہوئی ، تمام شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی کی ہدایت پر غفلت کے ذمہ دار نشتر ہسپتال کے 3 ڈاکٹروں، 3 ملازمین اور متعلقہ تھانوں کے 2 ایس ایچ اوز کو معطل کردیا گیا۔
جن ڈاکٹروں کو معطل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اناٹومی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مریم اشرف، ڈیمونسٹیٹر ڈاکٹر عبدالوہاب اور ڈیمونسٹیٹر ڈاکٹر سیرت عباس شامل ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کے ملازمین غلام عباس، محمد سجاد ناصر اور عبدالرؤف، ایس ایچ او تھانہ شاہ رکن عالم کالونی عمر فاروق اور ایس ایچ او تھانہ سیتل ماڑی سعید سیال کو بھی معطل کردیا ہے۔جنکا کہنا تھا کے
اس گھناؤنے واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، دین اسلام میں لاشوں کی تجہیز و تدفین کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔لاشیں چھت پر پھینک کر غیر انسانی فعل کا ارتکاب کیا گیا ہے، لاشوں کی بے حرمتی کا واقعہ ناقابل برداشت ہے۔
لاشوں کی تدفین کس کی ذمہ داری تھی؟
ہسپتال لائی جانے والی لاشوں کو واپس لے جانا اور اس کی تدفین کرنا کس کی ذمہ داری ہے اس بارے میں ملتان پولیس اور نشتر یونیورسٹی کی انتظامیہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ نشتر یونیورسٹی کے ایک سینیئر استاد ڈاکٹر شفیق اللہ چوہدری نے بتایا کہ دو ہزار سولہ میں وزارت داخلہ نے ایک خط جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان لاشوں کومقامی پولیس واپس لے جا کر سکریٹری یونین کونسل کی مدد سے ان کی تدفین کا بندو بست کرے گی۔ ان کے بقول فلاحی تنظیموں اور پولیس کی طرف سے اس کام میں دلچسپی بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔ ہسپتال کے وسائل محدود ہیں ۔ ان معاملات کا کوئی قابل عمل حل تلاش کیا جانا چاہیے۔
زرائع کے مطابق نشتر ہسپتال کے قریب لاوارث لاشوں کا ایک قبرستان موجود ہے لیکن ان لاشوں کی تدفین بغیر وسائل کے کیسے ممکن ہے۔ ایک پولیس کے اے ایس آئی زرائع کے مطابق صرف حکم جاری کر دینے سے لاوارث لاشوں کی تدفین نہیں ہو سکتی۔ اس کے بقول نہر سے لاوارث لاش نکالنے، اس کا پوسٹ مارٹم کروانے، اس کی ٹرانسپورٹیشن اور تدفین سمیت اس پر چالیس ہزار روپوں سے بھی زیادہ خرچہ آتا ہے لیکن حکومت اس کام کے لیے دو ہزار روپے بھی نہیں دیتی۔ ڈی این پر خرچ بھی الگ ہے ،
سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کے برعکس دستیاب ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے عرصے میں نشتر ہسپتال میں چار سو پچاس کے لگ بھگ لاشیں لائی گئیں ان میں سے تین سو انہتر کو واپس پولیس کے حوالے کیا گیا۔ ان میں سے چونسٹھ لاشیں پوسٹ مارٹم کے بعد بھی غیر شناخت شدہ رہیں۔ تیرہ لاشوں کو مردہ خانے کی چھت پر بنے ہوئے کمروں میں منتقل کیا گیا اور چار لاشوں کو میڈیکل کے طلبہ کی تعلیم کے لیے استعمال کیا گیا۔ زرائع کے مطابق مزید 17لاوارث لاشوں کی تدفین کا عمل مکمل کر لیا گیاہے ، 24گھنٹوں کے دوران 76لاوارث لاشوں کی تدفین کی جا چکی ہے ، خواتین کی دو لاوارث لاشوں کی تدفین کے انتظامات کیئے جارہے ہیں ، تمام لاشوں اور باقیات کونشتر ہسپتال سے ملحقہ قبرستان میں دفنایا گیا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے مردہ خانے میں سہولتوں کو وسعت دینے اور اس کے تعمیراتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے فنڈز جو اب جاری ہوئے ہیں یہی پہلے جاری کر دیتی تو یہاں موجود کیسز کو بہتر طریقے سے ڈیل کیا جا سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آئندہ کے لیے ایسی پالیسیوں کو وضع کرے کہ آئندہ انسانیت کی تذلیل نہ ہو، شہریوں کا کہنا ہے کے نشتر ہسپتال کی چھت پر کٹی، پھٹی اور نوچی ہوئی لاشیں کو جب بھی سوچتے ییں ، تو بے ساختہ شیخ ابراہیم ذوق کا یہ شعر زبان پر آگیا
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا، تو کدھر جائیں گے