(24 نیوز)مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن اب بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا،مخصوص نشستوں کے فیصلے کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت آج آٹھواں مشاورتی اجلاس بھی بے نتیجہ ثابت ہوا۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ الیکشن کمیشن کے ممبران، سیکریٹری، حکام اور قانونی ٹیم شریک تھی جو تاحال کسی فیصلے پر اتفاق رائے پیدا نہ کر سکے۔جبکہ الیکشن کمیشن کے دو ممبران نے سپریم کورٹ سے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے رائے لینے کی تجویز دی،جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے وضاحت کے لیے پھر رجوع کر لیا ہے اور عدالت عظمیٰ کو دی گئی درخواسست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ آنے کے بعد عدالتی فیصلے پر رہنمائی کی جائے۔
پروگرام ’10تک‘ کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے مختصر فیصلے پر جب وضاحت مانگی گئی تھی اس وقت تک نیا ایکٹ موجود نہیں تھا۔ تاہم پارلیمنٹ نے الیکشن ترمیمی ایکٹ کی صورت میں اب نیا قانون بنا دیا ہے، اس لیے بتایا جائے کہ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کرے یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے خط لکھا کہ عدالتی فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترمیم ہوئی۔ الیکشن کمیشن سے ڈی نوٹیفائی ارکان نے بھی ترمیمی قانون پرعمل کیلیے رجوع کیا۔ عدالتی فیصلے پر 39 ارکان کی حد تک الیکشن کمیشن عملدرآمد کر چکا ہے۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ترمیمی ایکٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق ترمیم کر کے اس کا ماضی سے اطلاق کیا گیا جب کہ عدالتی فیصلے واضح ہیں کہ پارلیمنٹ کی دانش کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔الیکشن کمیشن نے درخواست میں کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترمیمی ایکٹ پر عمل نہ کرنا بھی سوالیہ نشان ہوگا۔
اب الیکشن کمیشن نے اپنی درخواست میں جو مؤقف اپنایا ہے اُس سے یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ شاید اِس کا جھکاؤ حکومت کی طرف ہے کیونکہ درخواست میں الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ پر عمل نہ کرنے کے نتائج کا بھی ذکر کیا ہے ۔اب الیکشن کمیشن پر یہ الزام بھی لگ رہا ہے کہ وہ اِس معاملے پر تاخیری حربے آزما رہا ہے۔اور یہ الزام بھی لگ رہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرکے توہین عدالت کا مرتکب ہورہا ہے۔اور اِس سے پہلے سپریم کورٹ نے ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے کے متعلق الیکشن کمیشن کی درخواست کو تاخیری حربے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کے نتائج ہو سکتے ہیں۔ آٹھ ججز نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ فیصلے میں کوئی ابہام نہیں اور الیکشن کمیشن اس پر فوری عمل کرے۔اب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو واضح یہ حکم دیا ہے کہ وہ فیصلے پر عمل در آمد کرے،تاخیری ھربے استعمال نہ کرے اِس کے باوجود الیکشن کمیشن کا پھر سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا یہی بتا رہا ہے کہ شاید الیکشن کمیشن تاخیری ھربے استعمال کر رہی ہے ۔جس پر سپریم کورٹ کوئی سخت ایکشن بھی لے سکتا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ کنور دلشاد بھی الیکشن کمیشن کو فیصلے پر عمل کرنے کا مشورہ دیے رہے ہیں -