مجوزہ آئینی پیکج کی منظوری،حکومت نے اہم فیصلہ کرلیا
اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئینی پیکیج اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ایوان میں پیش کیا جائے گا،عرفان صدیقی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)حکومت آئینی ترامیم کیلئے سرگرم مگر اپوزیشن رکاوٹ ڈالنے کیلئے پیش پیش،پارلیمنٹ کا اجلاس تاخیر کا شکار،مجوزہ آئینی پیکج کی منظوری کیلئے اجلاس جلد ہونے کا امکان ہے،حکومت اسے جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اسے امید ہے کہ پیکیج کی منظوری کے لیے مطلوبہ حمایت حاصل کر لے گی۔
ایک رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئینی پیکیج اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ایوان میں پیش کیا جائے گا۔تاہم عرفان صدیقی نے اتفاق کیا کہ خاص طور پر سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰٰن کی حمایت کے بغیر آئینی ترامیم کا منظور ہونا ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحاد اس حوالے سے سربراہ جے یو آئی (ف) کے ساتھ رابطے میں ہے، جنہوں نے آئینی عدالت کے تصور کی حمایت کی ہے لیکن وہ اہم معاملات پر وضاحت چاہتے، جس میں ججز کی تعداد، تقرر کا طریقہ کار، مدت، ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس اسٹرکچر شامل ہیں۔عرفان صدیقی نے بتایا کہ مجوزہ آئینی عدالت کی نوعیت وفاقی اور اس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہوگی۔
انہوں نے یاد دلایا کہ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مئی 2006 میں طے پانے والے میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا، اس تجویز کی پی ٹی آئی کے بانی عمران خان سمیت تمام اہم سیاسی رہنماؤں نے تائید کی تھی۔ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں مجوزہ تبدیلیوں کے حوالے سے انہوں نے یاد کیا کہ 18ویں ترمیم سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان اور صوبائی چیف جسٹسز کا ججوں کی تقرری میں اہم کردار تھا۔
2010 میں منظور کردہ 18ویں آئینی ترمیم کا مقصد طاقت کے توازن کو بحال کرنا تھا، جس میں 2 طریقے متعارف کرائے گئے، جس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن اور حکومت اور اپوزیشن کی یکساں نمائندگی کے ساتھ 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی شامل تھی۔ 19ویں ترمیم کی منظوری نے تقرری کے عمل میں پارلیمنٹ کے کردار کو مؤثر طریقے سے بے اثر کر دیا، جو اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دباؤ پر کیا گیا۔
عرفان صدیقی نے بتایا کہ پارلیمنٹ نے ’غیر ارادی طور پر‘ 19ویں ترمیم منظور کی، جس نے عملی طور پر عدالتی تقرریوں میں پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو مفلوج کر دیا، انہوں نے دلیل دی کہ موجودہ تجویز کا مقصد 18ویں ترمیم کی طرف لوٹنا ہے، جس سے پارلیمنٹ کو زیادہ بامعنی کردار ملے گا۔
یاد رہے کہ مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں مجموعی طور پر 54 تجاویز شامل ہیں،دستاویز کے مطابق مجوزہ ترمیمی بل میں آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز شامل ہے، آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف جانے پر ووٹ شمار کرنے کی ترمیم کی تجویز بھی ہے۔
آرٹیکل 17 میں ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کی تجویز اور آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی ترمیم کی تجویز شامل ہے،مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کیلئے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیراعظم کو دے گی۔
دستاویز کے مطابق قومی اسمبلی کی کمیٹی3 سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی، ججز کی تقرری کیلئے قومی اسمبلی کی کمیٹی 8 ارکان پر مشتمل ہو گی،کمیٹی ارکان کا انتخاب اسپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی پارٹی کے تناسب سے کریں گے، کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 7 روز قبل سفارشات وزیراعظم کو دے گی۔
مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی، سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں 3 سال کیلئے جج تعینات ہو گا۔بل میں ہائی کورٹس سے سو موٹو لینے کا اختیار واپس لینے اور ہائی کورٹ ججز کی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔
اس وقت ایوان میں پوزیشن کیا ہے؟
حکومتی بینچز پر قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن 110 اور پیپلز پارٹی کی 69 نشستیں ہیں جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے 22، ق لیگ کے 5، آئی پی پی کے 4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن ہیں۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق حکومتی بینچز پر20 مخصوص نشستوں کے سوا 213 اراکین ہیں جبکہ اپوزیشن بینچز پر سنی اتحادکونسل کے 80، جے یو آئی کے 8، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد اراکین، پی کے میپ، بی این پی مینگل اور ایم ڈبلیو ایم کا ایک ایک ممبر ہے۔اپوزیشن بینچز پر موجود ایک آزاد رکن نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔
سیکرٹریٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کو 15، پیپلز پارٹی پارٹی کو 5 اور جے یو آئی کو 5 مخصوص نشستیں دی گئیں تھیں تاہم مخصوص نشستیں گنتی میں شامل نہیں ہیں، قومی اسمبلی میں اراکین کی تعداد 23 مخصوص نشستوں کے بغیر313 ہے، خالی اور متنازع 23 نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے بعد تعداد 336 ہو جائے گی۔