خودکشی سے کشکول توڑنے تک کا سفر ،کیا یہ آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوگا؟
اظہر تھراج
Stay tuned with 24 News HD Android App
ہم قرض لینے پر بھی ایسے خوشی مناتے ہیں جیسے شادی ہویا کسی عزیز کے ہاں بچے کی پیدائش ہو،چلیں جی اشرافیہ کو بالخصوص اور اہلِ وطن کو بالعموم آئی ایم ایف کا 24 واں سات ارب ڈالر کا قرض پیکج مبارک ہو، اس شبھ گھڑی میں وزیرِ اعظم برادرِ بزرگ چین، سعودی عرب، امارات نیز قرض کھینچ سرکاری ٹیم اور آرمی چیف کے بھرپور تعاون اور کوششوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے،صاحب نے حسبِ معمول یہ تکیہ کلام بھی دھرایا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پیکج ہے،اللہ کرے کہ آخری ہو مگر لگتا نہیں۔
وزیر اعظم کی آواز میں اس شخص کا اعتماد پایا جاتا ہے جسے منت ترلے کے بعد اتنے پیسے مل جائیں کہ وہ آج کا دن ٹالنے کے لیے دو چار بھرے ہوئے سیگریٹ خریدتے وقت پُریقین انداز میں آس پاس والوں کو سنائے کہ ’اللہ دی قسمے اج توں بعد بالکل چھڈ دینی اے‘
ایسے ہی کچھ دعوے اور وعدے پاکستان کے زیادہ لوگوں کے ’مرشد‘سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی کیے تھے حالانکہ ان کو میرے جیسے بہت سے لوگوں نے منع بھی کہ تھا کہ ایسا نہیں کرپاؤ گے مگر نہیں کہتے کہ ’خود کشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا‘ خان صاحب کو اقتدار سنبھالتے وقت ”بلومبرگ“ نے بھی خبردار کیا تھا کہ معاشی چیلنجز آنے والی حکومت کا استقبال کریں گے، نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا لیکن کپتان ایک پہاڑ کی طرح ڈٹا رہا، بار بار خود کشی کرنے کا کہتے رہے۔ جب پانی سر سے گزرنے لگا، وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے نکل گیا تو کپتان کی آنکھیں کھلیں۔ وہی کیا جو ماہرین کہہ رہے تھے۔
کہتے ہیں کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے،موجودہ حکومت ہو یا پھر پچھلی حکومتیں وہ جب بھی آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہیں تو وہ یہی دعویٰ کرتی ہیں کہ یہ آخری قرض پروگرام ہوگا۔اور اب آخری قرض کا دعویٰ کرتے کرتے نوبت یہاں تک آپہنچی ہے پاکستان قرض کے لیے آئی ایم ایف سے 25 بار رجوع کرچکا ہے۔ پاکستان نے اس سال 25ویں مرتبہ آئی ایم ایف سے رابطہ کیا،حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ 2019 میں پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام مکمل طور پر ٹریک سے ہٹ چکا تھا اور یہی وجہ ہے کہ تب سے ملک کا معاشی بحران سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے اور ملک کو بلند افراط زر اور بڑھتی ہوئی غربت کا سامنا ہے۔
ضرورپڑھیں:قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے چیف جسٹس بننے کے اہل نہیں
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ سال ملک کی اقتصادی ترقی 2.4 فیصد تک گر گئی تھی جو کہ آبادی میں اضافے کی شرح 2.6 فیصد سے کم تھی کیونکہ ہماری ٹیکس وصولی کمزور رہی، ٹیکسز جی ڈی پی کا صرف 12 فیصد جبکہ اخراجات تقریباً 20 فیصد تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو بیرونی کھاتہ ، زرمبادلہ کے ذخائر اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی ، کم برآمدات اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ درآمدات پر زیادہ انحصار کی وجہ سے سخت چیلنجز کا سامنا تھا۔ اس سے 2023 جیسی ڈیفالٹ کی صورتحال پیدا ہوئی، جسے 2023 کے وسط میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہنگامی اسٹاپ گیپ کے انتظامات سے ٹلا دیا گیا جو اس سال کے شروع میں ختم ہوا۔حکومت اِن وجوہات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اُس کے پاس آئی ایم ایف کے پاس واپس جانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ اب جیسا کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا کو مختلف معاشی چیلنجز کا سامنا ہے ، ہر ملک ایک آئی ایم ایف کے پروگراموں کی مدد سے منفرد چیلنجوں سے نمٹ رہا ہے۔ اگر پاکستان کے قرض پروگرام کا بنگلادیش اور سری لنکا سے موازنہ کیا جائے توسری لنکا جنوبی ایشیائی ممالک میں IMF کا دوسرا سب سے زیادہ قرض لینے والا ملک ہے، جس کے اب تک 17 پروگرام ہیں۔ پاکستان کی طرح، یہ بھی معاشی بحران میں گھرا ہوا ملک ہے ۔ پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے آئی ایم ایف پروگراموں کی مماثلت کو دیکھیں تو اُن میں مالی استحکام، زرمبادلہ کے ذخائر کی آرام دہ سطح کی تعمیر نو اور غریبوں اور کمزوروں کی مدد کے لیے سماجی تحفظ کے اقدامات کو بڑھانا شامل ہے۔لیکن پروگراموں کے درمیان اختلافات زیادہ دلچسپ ہیں۔سری لنکا کے برعکس، بنگلہ دیش کا 2023 آئی ایم ایف پروگرام کسی بحران پر مشتمل نہیں جبکہ سری لنکا کا پروگرام قرض کی پائیداری پر توجہ دلاتا ہے، دوسری طرف پاکستان اپنے بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، توانائی کا شعبہ اور اس کا بڑا مالی بوجھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پروگراموں کی مستقل خصوصیت رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا نیا پروگرام پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرے گا؟ دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کا مقصد ملکی معیشت کو مستحکم کرنا ہے، لیکن اس کی طویل مدتی ترقی اور ترقی کی صلاحیت غیر یقینی ہے۔ گو کہ یہ پروگرام ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور حکومتی شفافیت کو بہتر بنانے جیسے اہم مسائل کو حل کرتا ہے، لیکن یہ پاکستان کی معیشت میں دیگر بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتا ہے۔مثال کے طور پر، آئی ایم ایف پروگرام کی توجہ ریونیو بڑھانے پر ہے، لیکن یہ حکومتی اخراجات کے مسائل کو حل نہیں کرتا - جو پاکستان کی معیشت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ نئے آئی ایم ایف پروگرام کے فوائد پر بات کریں تو یہ پروگرام ایک حد تک معاشی استحکام کو یقینی بنائے گا۔ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے حکمران اتحاد کو سیاسی فائدہ بھی پہنچے گا۔ یہ پروگرام پاکستان کے اقتصادی شراکت داروں کو اعتماد فراہم کرے گا -
بہرحال اب حکومت یہ تو کہتی ہے کہ اُس کو آئی ایم ایف پروگرام کی بہت ضرورت ہے، لیکن پاکستان کو بھی آئی ایم ایف کے بچاؤ کے چکروں سے نکلنے کے لیے پروگرام کے نسخوں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب حکومت ٹیکس اکھٹا کرنے کے چیلنج کو پورا کر رہی ہے وزیراعظم شہباز شریف نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت ٹیکس گزاروں کیلئے پری فلڈ ریٹرن نظام کی منظوری دے دی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے مالی سال 2024-25ء سے گزشتہ روز تنخواہ دار ٹیکس گزاروں کی پری فلڈ ریٹرن سسٹم کا آغاز کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔اِن ہدایات پر 23ستمبر سے عملدرآمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ 2025ء سے بزنس مین افراد پر بھی پری فلڈ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا نظام شروع کر دیا جائے گا۔اب پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ پہلے ہی بے پناہ ٹیکس دے رہا ہے۔گزشتہ مالی سال کی اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ تنخواہ دار طبقے نے پورے مالی سال میں مجموعی طور پر 1874 ارب روپے میں سے 264 ارب روپے ٹیکس دیا۔پری فلڈ ٹیکس کی بات کریں تو پری فِلڈ ٹیکس ریٹرن ایک ایسی ٹیکس فارم ہوتی ہے جس میں کچھ مالی معلومات پہلے سے ہی خودکار طریقے سے ٹیکس اتھارٹی کے ذریعے بھری جاتی ہیں، جو کہ مختلف اداروں جیسے کہ بینک، سرمایہ کار کمپنیوں اور دیگر اداروں سے جمع کی گئی ہوتی ہیں۔ ان معلومات میں تنخواہ، بینک سود، ڈیویڈنڈز، میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری یا ریٹائرمنٹ اکاؤنٹ جیسی معلومات شامل ہو سکتی ہیں۔حکومت کے بقول اس کا بنیادی مقصد ٹیکس دہندگان کے لیے ٹیکس فائلنگ کے عمل کو آسان بنانا ہے تاکہ انہیں فوری طور پر کم سے کم معلومات بھرنی پڑیں۔یہ نظام وقت بچانے، غلطیوں کو کم کرنے اور ٹیکس کی ادائیگی کو بہتر بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ کچھ ممالک جہاں پری فِلڈ ٹیکس ریٹرن کا استعمال ہوتا ہے، ان میں آسٹریلیا، سویڈن اور یورپی یونین کے کچھ ممالک شامل ہیں۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر