وراسٹائل گلوکار منیرحسین:ان کے گیت انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں 

36 سالہ کیریئر کے دوران  163 فلموں کے لئے 217 اردواورپنجابی گانے گائے

Sep 27, 2024 | 12:22:PM
وراسٹائل گلوکار منیرحسین:ان کے گیت انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں 
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)نامورپلے بیک گلوکارمنیرحسین کومداحوں سے بچھڑے آج 29 برس بیت گئے،وہ پاکستان کے پہلے گلوکار تھے جنہیں بیک وقت اُردواور پنجابی فلموں میں کامیابی ملی۔

منیرحسین نے اپنے 36 سالہ کیریئر کے دوران  163 فلموں کے لئے 217 گانے گائے جن میں اُردو کے علاوہ پنجابی گانے بھی شامل تھے،انہوں نے فنی زندگی کا آغاز فلم ”سات لاکھ“ سے کیا اور پہلے ہی گانے”قرار لوٹنے والے توپیارکوترسے“نے شُہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا،اس گانے کی ریکارڈنگ کے لیے ان کے ماموں رشید عطرے نے انہیں بڑی تیاری کروائی تھی۔

اپنے انتہائی عروج کے دورمیں وہ گلوکار سلیم رضا کے بعدپاکستان کے دوسرے مقبول ترین فلمی گلوکار تھے،انہوں نے اور سلیم رضا نے 1950ءاور 1960ءکی دہائی میں پاکستان فلم انڈسٹری میں پلے بیک گلوکاری کے شعبے میں راج کیا۔

ایک موسیقار گھرانے سے تعلق رکھنے والے منیرحسین کے سگے ماموں رشیدعطرے پاکستان کے عظیم موسیقار تھے جبکہ خالہ زاد بھائی صفدرحسین بھی نامور موسیقار تھے اس طرح پاکستان میں سب سے زیادہ فلموں کی موسیقی دینے والے موسیقاروجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی تھے۔

 ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ ڈوئٹ ”اِک چیز گواچی “ بھی مقبول ہوا تھا جو پنجابی فلم ”نوراں“ میں شامل تھا،منیرحسین کو اگرچہ شُہرت فلم ”سات لاکھ“ کے گانوں سے ملی لیکن ”نوراں“ ان کی پہلی فلم تھی،فلم ”مکھڑا“ کے لئے ”دِلاں ٹھہرجایار دا نظارا لین دے“بھی ان کے مقبول ترین گانوں میں شامل ہے لیکن ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ فلم”ہیررانجھا“ کےلئے ڈوئٹ ”ونجھلی والڑیا“ ان کا سدا بہار گیت ہے ،اس گانے کو خواجہ خورشید انور نے کمپوز کیا تھا،احمد راہی اس شُہر آفاق گیت کے خالق تھے۔ 

منیرحسین 27 ستمبر1995ءکوراہی ملک عدم ہوگئے تھے۔