جی ہاں جو میں نے لکھا ہے صحیح لکھا ہے اور یہ میں خود لکھ رہا ہوں گو یہ الفاط مستعار لیے ہیں اپنے دوست و کولیگ عرفان ملک سے ،جنہوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ کو یہی عنوان دیا ہے، عرفان مختصر بات کرتا ہے لیکن الفاظ کا چناو ایسا ہوتا ہے کہ سامنے والا لاجواب ہوجاتا ہے اور کچھ ایسا ہی اُس نے اپنی پوسٹ کے ساتھ بھی کیا ۔بات لمبی نہ ہوجائے تو پہلے اس کے الفاظ جو ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں :
"قاضی فائز عیسیٰ کسی طور پاکستان کا چیف جسٹس رہنے کے اہل نہیں ہیں اور انھیں فی الفور استعفی دینا چاہیے.جو بیوقوف آدمی اپنی اور اپنی عورتوں کی عزت نہیں سنبھال سکتا وہ قانون کی عزت خاک سنبھالے گا.
جس کو یہ نہیں پتا کے جس ملک میں چیف جسٹس دس دس گاڑیوں کے پروٹوکول میں پھرتا ہے یہ وہاں تن تنہا ڈونٹ کھانے چل پڑا. یہی اسکے ساتھ چیف جسٹس والی سیکورٹی ہوتی تو میں دیکھتا یہ دو ٹکے کا یوتھیا کتا، ایک چیف جسٹس کے ساتھ اس طرح بات کیسے کرتا،نہ یہ ملتا، نہ اس کا کیمرہ، نہ یہ ویڈیو وائرل ہوتی اور نہ یوتھئیے کی زندگی کبھی نارمل ہوتی.
مگر قاضی صاحب کو ہیرو بننے کا شوق ہے، کتوں کو انسان سمجھنے کا شوق ہے، دفتر پیدل جاتے ہیں، پروٹوکول کے بغیر گھومتے ہیں، اپنے اختیارات بڑھانے کے بجائے چھوڑ دیتے، رشوت لے کر فیصلے نہیں کرتے، پاکستان میں اصول بانٹتے پھرتے ہیں.
جس آدمی کو اس عمر تک کتے کی خصلت ہی سمجھ نہیں آئی، وہ چیف جسٹس رہنے کے قابل نہیں ہے اور اسے فورا جا کے کسی ایدھی سنٹر میں ملنگ بننا چاہیے اور چیف جسٹس کسی دبنگ کو بنایا جائے جو فل پروٹوکول کیساتھ ان کتوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھ سکے اور چیف جسٹس کے عہدے کا وقار لوٹا سکے"
پڑھیں تو بہت تلخ باتیں ہیں لیکن ہیں حقیقت کہ یہاں بیرونی ٹکڑوں پر جو بھونکنے والی مشینیں تیار کی گئی ہیں جنہیں "گھاتک ناسور" (ناقابل علاج زخم ) جیسا چیف جسٹس چاہیے تھا جو کہتا کہ دو تین ایم این اے تو میں ہی بٹھا لوں گا ، کبھی کسی ہوٹل کے مالک سے ناراض ہوتا تو ہوٹلز کے کچن پر چھاپے مارتا ، جیلر سے ناراضگی ہوتی تو بیروکوں میں گھس جاتا ، پاگل خانے کا ایم ایس بدلنا چاہتا تو مینٹل ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ،برتن اٹھا اٹھا کر باہر پھینکتا ، ڈیم فنڈ کے دس دس روپے غریبوں سے اکھٹا کرتا ، بیرون ملک جائیدادیں بناتا اپنے بچوں کی شاہانہ شادیوں پر اتنے پیسے خرچ کرتا کہ مہیش امبانی بھی شرما جاتا ، جو الیکشنز میں اپنے بیٹے کے ذریعے تحریک انصاف کی ٹکٹیں فروخت کرتا ، جو پانامہ میں سے اقامہ نکالتا ، جو پی کے ایل آئی جیسے عوامی فلاحی منصوبے کے ڈاکٹر کو بلا کر صرف اس لیے بے عزت کرتا کہ اُس کا بھائی بھارتی ہسپتالوں میں پیوند کاری کا پاکستان میں سول ڈسٹری بیوٹر تھا ،جو پی کے ایل آئی کے ڈاکٹر سے پوچھتا کہ کیا قابلیت تھی کہ تمہیں اتنی تنخواہ دی جارہی ہے اور جب داکٹر بتاتا کہ اس سے چار گناہ تنخواہ امریکہ سے چھوڑ کر آیا ہوں تو کہتا وہیں واپس چلے جاو ، ان کو ایک ایسا چیف جستس چاہیے تھا جو چُن چُن کر سیاسی وابستگی والے جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں لاتا ، ملک کے منتخب وزیر اعظم کے نام نہاد کرپشن پہ "ہیروں " پر مشتمل کمیٹی بناتا (یہ ہیرے ہیرا منڈی والے تھے یا نہیں اس کا فیصلہ آپ خود کرلیں ) جو انصاف پسند ججز کا گلا گھونٹتا اور رشوت خور بلکہ ٹرک خور ججز کو اوپر لاتا ، جو سیشن کورٹ میں مرضی کے فیصلے کرانے کے لیے نگران جج مقرر کراتا (سلام آباد پلازے والا جج ) جب منتخب وزیر اعظم کے کیس میں کرپشن نہ ملے تو پانامہ سے اقامہ اور پھر " بلیک ڈکشنری " نکال کر فیصلے کراتا ، جو ججز کی تنخواہوں میں 100 فیصد اور پینشن میں 200 فیصد اضافہ کرتا ، جو الیکشن میں دھاندلی کو سپورٹ کرتا حق کی ہر آواز کو دباتا اور جھوٹ کو پروان چڑھاتا ۔
ضرورپڑھیں:سپریم کورٹ سے دو استعفے،قاضی کا خط قیامت ڈھا گیا
یا انہیں ایسا چیف جسٹس چاہیے تھا جو "گارڈ فادر " نامی ناول پڑھ کر خیالی جرائم پر حقیقی سزائیں دیتا ، پی ٹی آئی کے کسی سیاسی مخالف کی ضمانت نہ ہونے دیتا جو کرپشن کا دلدادہ اور انصاف کا قاتل ہوتا ، یا ان کو ایسا چیف جسٹس چاہیے تھا جو اداکارہ شبنم کے ساتھ ریپ کرنے والے خاندان سے ہوتا ، جس کی ساس ، بیوی ، بہو بانی تحریک انصاف کی عاشق ہوتی جو اپنے ساتھی جج کی بیوی پر لگنے والے الزامات کو اتنی ہوا دلاتا کہ وہ استعفیٰ دے جاتا ۔ لیکن جج ڈھیٹ نکلا اس نے الزامات کے مقابلے کا فیصلہ کیا اور خود کو بے گناہ قرار دلوایا ۔
جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب آپ جیسا انصاف پسند بندہ انہیں کہا ں راس آنا ہے جس نے خود کی اور اپنی بیوی کی ایمانداری ثابت کرنے کے لیے وقت کے نمرودوں کے سامنے آگ میں جل کر اپنا آپ ثابت کیا ہے ، انہیں وہ قاضی فائز عیسیٰ کب درکار ہے جو قاضی محمد عیسیٰ کا بیٹا ہے اس قاضی فائز عیسیٰ کا بیٹا جو قائد اعظم کا ساتھی اور محب تھا جس نے قائد اعظم کو اُس وقت سونے میں تولا تھا جب مسلم لیگ کو مالی مشکلات درپیش تھیں ، جس نے تحریک پاکستان اور پاکستان کے لیے سب کچھ لٹا دیا ایسا چیف جسٹس بقول عرفان ملک "کتوں " کو نہیں چاہیے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر