(24نیوز)سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کو پڑوسی ملک کی حیثیت سے دیکھتا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کا خواہش مند ہے۔ مسئلہ ایران کا منفی طرز عمل ہے۔ ایران اپنے متنازع جوہری پروگرام اور ملک سے باہر ایرانی ملیشیاﺅں کی مدد ایران کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ ہے۔
جب ان سے ایران کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایران ایک ہمسایہ ملک ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایران کے ساتھ تعلقات خراب کریں، اس کے برعکس ہم چاہتے ہیں کہ ایران ترقی کرے۔ ہمارے مفادات ایران سے اور ایران کے سعودی عرب سے وابستہ ہیں۔ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دے کر ہم خطے اور دنیا کو ترقی اور خوشحالی کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا مسئلہ ایران کے منفی رویے کا نتیجہ ہے خواہ اس کا جوہری پروگرام ہو یا خطے کے کچھ ممالک میں قانون سے باہر ملیشیاﺅں کی حمایت یا اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام ہو۔ یہ سب ہمارے لیے تعلقات کو آگے بڑھانے کی رکاوٹیں ہیں۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے خطے اور دنیا میں اپنےاتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب اپنی سرحدوں پر مسلح ملیشیاﺅں کی موجودگی کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ یہ مسلح گروپ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوںنے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی دعوت کا اعادہ کیا۔شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ حوثی باغیوں کا ایرانی حکومت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یمن میں آئینی حکومت کے خلاف حوثی بغاوت غیر قانونی ہے۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حوثیوں کا ایرانی حکومت کے ساتھ گہرا تعلق ہے لیکن حوثی یمن ہی کے باشندے ہیں اوران کی شناخت یمن کے عرب باشندوں کے ساتھ ہے۔ مجھے امید ہے کہ یمن کے حوثی اپنے ملک کے مفادات کو ہرچیز پرمقدم رکھیں گے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ حوثی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل طلب مسائل کا حل تلاش کریں گے جو تمام یمنیوں کے حقوق کی ضمانت اور خطے کے ممالک کے مفادات کی ضمانت دیں۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مزید کہا کہ سعودی عرب اپنی سرحدوں پر خلاف قانون کسی مسلح تنظیم کے وجود کو قبول نہیں کرتا۔ حوثیوں کو جنگ بندی قبول کرنا ہوگی اور انہیں مذاکرات کی میز پر بیٹھ آنا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں۔پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنسدانوں نے بڑی کامیابی حاصل کرلی ، جان کر آپ کا سر بھی فخر سے بلند ہو جائیگا