مڈل السٹ میں بتدریج بڑھتی کشیدگی کے سایہ میں چند دن قبل سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفد کی پاکستان آمد کے بعد ایرانی صدر رائیس ابراہمی کا تین روزہ دورہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا ۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک جنوری کے میزائل حملوں کے بعد تعلقات کو نارمل بنانے کی تگ و دو میں سرگرداں ہیں تاہم ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی صدر آصف علی زرداری ، وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقاتیں معمول کے تعلقات سے بڑھ کر زیادہ گہرائی کی حامل نظر آتی ہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق رئیسی کا دورہ اسلام آباد/ راولپنڈی ایران کیلئے پاکستانی فوجی قیادت کی حمایت کے اظہار کو نمایاں کرنے کی کوشش کا شاخسانہ تھا گویا دونوں پڑوسیوں کا مقصد سرحدی امور، اقتصادی اور توانائی کے شعبہ میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے علاوہ خطہ کے تزویری مسائل پہ بھی یکساں موقف لینے تک پہنچنا ہے ۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ فریقین کے پیش نظر پاک ایران تعلقات کو مضبوط بنانے کے علاوہ تجارت، رابطے، توانائی، زراعت اور عوام کے درمیان رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کا وسیع ایجنڈا ہے۔ تاہم ایران کے اسٹریٹجک ماہرین اس امر سے واقف ہیں کہ پاکستان اس وقت داخلی سیاسی بحران اور معاشی مجبوریوں کے جس آشوب میں مبتلا ہے،اسی کے باعث وہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے اسرائیل کے ساتھ جاری تنازعات میں الجھنے سے اجتناب کرے گا ۔
دوسرا ماضی میں دونوں ممالک ایک دوسرے پر مسلح گروہوں کے ذریعے حملوں اورسرحدی کشیدگی بڑھانے کے الزامات عائد کرتے رہے،چنانچہ دونوں ممالک کے لئے اعتماد کے فقدان کو عبورکرنا آسان نہیں ہو گا تاہم وسیع پیراڈائم شفٹ کے تحت جنوبی ایشیا میں بدلتے حالات کی بدولت دونوں پڑوسی ممالک نے کشیدگی کم کرکے سرحدی علاقے میں دہشت گردی کے خطرات سے مل کر نمٹنے پہ اتفاق کر لیا ،یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی کے ماہرین نے سرحدی کشیدگی کے باوجود ہمیشہ ایران کے ساتھ سفارتی روابط کی حمایت جاری رکھی کیونکہ پاکستان بھارت کے علاوہ افغانستان کے ساتھ بھی کئی قسم کے سرحدی تنازعات میں انگیج ہے، اس لئے ایران کے ساتھ مستحکم تعلقات پاکستان کی بقاءکیلئے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔
امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ایران اور پاکستان کے مابین مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) اور خام تیل سمیت دیگر اشیاءکی غیر رسمی تجارت کبھی رک نہیں سکی، مئی 2023 میں شہباز شریف اور رئیسی نے پشین بارڈر کراسنگ پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کرکے تجارتی عوامل کو ریگولیٹ کرنے کی طرف پہلا قدم بڑھایا ۔ مزید برآں، دونوں پڑوسیوں کے درمیان قریبی ثقافتی اور مذہبی تعلقات استوار ہیں، پاکستان سے ہر سال دسیوں ہزار شیعہ زیارات کیلئے ایران کا رخ کرتے ہیں لیکن مشترکہ ثقافتی بندھن اور900 کلومیٹرطویل سرحدی وابستگی کے باوجود اقتصادی تعاون اور باقاعدہ سماجی روابط کے دائرے بوجوہ بتدریج تنگ ہوتے گئے، تجارت زیادہ تر غیر رسمی اور عوامی تعلقات مخصوص طبقہ کی مذہبی سیاحت تک محدود رہے۔ اپنے حالیہ دورے کے موقع پر ایرانی صدر نے دو طرفہ تجارت کو 2 بلین سے بڑھا کر 10بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کی سطح کو سیاسی تعلقات کی سطح کے برابر لایا جائے گا تاہم اس عزم کے باوجود پاکستان کو ایرانی قدرتی گیس برآمد کرنے کیلئے پائپ لائن کی تعمیر کا منصوبہ امریکی دباؤکے باعث تعطل کا شکار ہے جس نے جوہری پروگرام کو جواز بنا کر تہران پر وسیع پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاہم اس کے باوجود ایران کو بھارت اور چین سے تجارتی معاہدات اور اقتصادی تعلقات قائم رکھنے کا استثنی حاصل ہے۔
یوکرین جنگ کے دوران روس کی طرف سے یوروپ کو گیس سپلائی بند ہونے کے بعد فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک بھی ایران سے گیس خرید رہے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے تہران پر نہیں بلکہ صرف پاکستان پر ایران سے تجارتی معاہدات پہ پابندی لگا رکھی ہے۔یہ عین ممکن ہے صدر ابراہیم رئیسی کے حالیہ دورہ میں پاک ایران گیس پائپ لائن پر کوئی بات چیت ہوئی ہو لیکن جاری کردہ اعلامیہ میں اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایرانی خارجہ پالیسی کے اہداف میں مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کا خاتمہ شامل ہے اور اسی مقصد کے حصول کی خاطر ایران حماس اور حزب اللہ سمیت متعدد جہادی گروپوں کی پشت پناہی کرکے خطہ میں عدم استحکام کو مہمیز دیتا ہے،جو بتدریج نامطلوب تبدیلیوں اور مسائل کا سبب بن کر مڈل ایسٹ کی حکومتوں کو سیاسی طاقت سے محروم کرنے کے علاوہ اقتصادی صورتحال کو دگرگوں کرکے پورے خطے میں عدم استحکام کا سبب بنتے ہیں۔
یوں دنیا کی سب سے بڑی تیل کی مارکیٹیں مسلسل سیاسی عدم استحکام سے متاثر رہتی ہیں، بلاشبہ عدم استحکام کسی بھی مملکت کی معیشت، سیاسی نظام یا حریفوں کی سماجی شکلوں کو تیزی سے بدل کر ریاستی اداروں کی جوابی کارروائی کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے،شاید اسی تناظر میں 14 اپریل کو، اسرائیل پر ایرانی حملہ کے ایک دن بعد، پاکستانی وزارت خارجہ نے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے سفارت کاری کی خرابیوں کا نتیجہ قرار دیا۔
وزارت کے بیان میں کہا گیا ” ایسے معاملات سنگین مضمرات کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن برقرار رکھنے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہو “۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے نہ اس کے ساتھ براہ راست رابطے کے ذرائع ہیں تاہم حالیہ برسوں میں،خلیجی تعاون کونسل ممالک کی طرف سے پاکستان پر اپنی روایتی فلسطین پالیسی میں تبدیلی کیلئے دباؤ بارے کچھ قیاس آرائیاں سامنے آئیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں آنے والے اعلی سطح وفد نے مڈل ایسٹ کی سیاست کی بدلتی حرکیات میں پاکستان سے پالسی امور پہ نظرثانی کی درخواست کی ہو لیکن تاحال اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ ہمارے پالیسی سازوں کے پیش نظر ایسی کوئی تبدیلی زیر غور ہو۔بلاشبہ ایرانی صدر کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب دونوں پڑوسی امسال دوطرفہ فوجی حملوں کے بعد تعلقات کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مشغول نظر آتے ہیں اور دہشت گردی کے خطرات سمیت مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے یکساں نقطہ نظر اپنانے کی خاطر اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاہم قرائن بتاتے ہیں کہ رئیسی کا دورہ اسلام آباد صرف تعلقات کو معمول پر لانے کی مساعی تک محدود نہیں ہو گا ۔
نیوز بریفنگ میں وزیراعظم شریف کی طرف سے غزہ میں انسانی صورتحال پر سخت موقف اختیار کرنے پر ایران کی تعریف کرتے ہوئے مسلم ممالک پر زور دینا کہ وہ متحد ہو کر تنازعات کے خاتمہ کیلئے آواز بلند کریں، محل نظر رہے گا،علی ہذالقیاس ، متعدد تجارتی معاہدوں اور سیاسی و سماجی روابط کے باوجود آج بھی پاکستان اور ایران کے درمیان امریکہ ایران تنازعات حائل کھڑے ہیں، اُن کا سب سے بڑا 2010 کا طے شدہ گیس کی فراہمی کا معاہدہ ،جس میں ایران کے فارس گیس فیلڈ سے پاکستان کے جنوبی صوبوں بلوچستان اور سندھ تک پائپ لائن کی تعمیر شامل ہے،انہی تنازعات کی پیچیدگیوں کی نذر ہو رہا ہے۔گیس کی اشد ضرورت کے باوجود، اسلام آباد نے امریکی پابندیوں کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے، پائپ لائن کے اپنے حصے کی تعمیر کے کام کو تاحال التواءمیں رکھا ہوا ہے۔پاکستان نے کہا کہ وہ امریکہ سے استثنٰی مانگے گا تاہم واشنگٹن کی طرف سے سخت انتباہ میں، پاکستان کو ایران کے ساتھ حالیہ معاہدوں کے بعد پابندیوں کے ممکنہ خطرات بارے خبردار کر دیا گیا ، خاص طور پر صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ اسلام آباد کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے ایٹمی پھیلاؤ کے نیٹ ورکس اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں بارے خدشات کا اظہار کیا کیونکہ اسلام آباد تہران کے ساتھ اپنے سکیورٹی اور اقتصادی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی جانب گامژن ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایران کے ساتھ کاروبار میں ملوث ہونے سے متعلق خطرات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم پھیلاو¿ کے نیٹ ورکس اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی خریداری کی سرگرمیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں گے ۔ یہ بیان پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی حمایت کرنے کے الزام میں چین اور بیلاروس کے اداروں پر حالیہ امریکی پابندیوں کے بعد سامنے آیا ۔
پاکستان ایران دو طرفہ معاہدے کے مطابق پاکستان ایران سے گیس پائپ لائن کی تعمیر کے ایک دیرینہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہا ہے، یہ منصوبہ ممکنہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے بار بار ملتوی ہوتا رہا۔ گزشتہ ماہ کانگریس کی سماعت میں،جب پاکستان ایران پائپ لائن بارے سوال کیا گیا تو اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو نے تصدیق کی کہ ” بائیڈن انتظامیہ ایران سے متعلق تمام پابندیاں برقرار رکھے گی“۔ پائپ لائن کے حوالے سے پابندیوں سے چھوٹ کیلئے درخواست دینے کے ارادوں کے باوجود صدر رئیسی کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران اس منصوبہ پر اعلانیہ بات چیت نہیں ہوئی۔ صدر رئیسی کے دورے کے دوران پاکستان اور ایران نے آٹھ دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کیے جن کا مقصد سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو بڑھانا ہے۔ ان معاہدوں میں ویٹرنری اور جانوروں کی صحت، دیوانی مقدمات میں عدالتی معاونت اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون شامل تھا تاہم ایران پاکستان تعلقات میں حالیہ پیشرفت نے بین الاقوامی حلقوں کو چونکا دیا ہے کیونکہ دستخط کیے گئے معاہدوں اور دو طرفہ تجارت کو اگلے تین سے چار سالوں میں تقریباً 10 بلین ڈالر تک بڑھانے کا عزم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تزویراتی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔