(24 نیوز)تحریک انصاف میں دراڑیں پڑ رہی ہیں ۔یہ دراڑیں وقت کے ساتھ گہری ہوتی چلی جارہی ہیں ۔تحریک انصاف میں دھڑے بندی سے کنفیوژن پھیل رہی ہے۔ایک رہنما کا بیان دوسرے رہنما کے بیان سے نہیں ملتا۔یہاں تک کہ بانی پی ٹی آئی اور وزیر اعلی خیبرپختونخوا کے بیانات میں بھی کافی تضاد نظر آرہا ہے ۔جیسا کہ کل بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جھوٹ پر چل رہی ہے، میرا اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہے، اگر اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوگی تو صرف ملک، آئین کے لیے ہوگی۔
پروگرام’10 تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب یہ بانی پی ٹی آئی کا مؤقف ہے جس پر اُن کے اپنے ہی وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور پانی پھیرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ترنول جلسہ منسوخ کیا گیا۔ اسلام آباد کا جلسہ ملتوی کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے مجھ سے رابطہ کیا تھا، مجھ سے اسٹبلشمنٹ نے نچلی سطح پر رابطہ نہیں کیا، میں وزیراعلیٰ ہوں تو مجھ سے اسی لیول کا رابطہ ہوا۔
اب علی امین گنڈ اپور کا سیاسی کردار مشکوک نظر آتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وہ وکٹوں کی دونوں جانب کھیل رہے ہیں ۔بہرحال علی امین گنڈاپور کے بیان کو دیکھیں تو علیمہ خان کے اِس مؤقف کو تقویت مل رہی ہے جس میں اُنہوں نے اِس بات کا اظہار کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر پی ٹی آئی رہنماؤں نے بانی پی ٹی آئی کو جلسہ ملتوی کرنے پر دباؤ ڈالا۔دوسری بات یہ کہ بانی پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ نہ ہونے کا دعوی یہاں مشکوک نظر آرہا ہے۔ تحریک انصاف کے آپس کے جگھڑے اِتنے گہرے ہورہے ہیں کہ پارٹی میں کوئی بھی مؤثر بیانیہ نہیں بن پارہا۔یہاں تک کہ بانی پی ٹی آئی کے بیانات اُن کےاپنے پارٹی کے لوگ جٹھلادیتے ہیں ۔جس سے پارٹی کی ساکھ کو اچھا بھلا ڈنٹ لگ رہا ہے۔اور رہی سہی کمی حکومت پوری کر رہی ہے۔لیگی رہنما بیرسٹر عقیل کہتے ہیں کہ تحریک انصاف میں عہدوں کی جنگ چل رہی ہے۔
اب جہاں تک عہدوں کی جنگ چل رہی ہے تو یہ بات خیبرپختونخوا میں ہمیں نظر آتی ہے۔خیبرپختونخوا حکومت کے وزراء اپنے وزیراعلی پر کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں ۔اور تاثر یہ ہے کہ جو بھی وزیر اعلی علی امین گںڈاپور کی مرضی کیخلاف جاتا ہے اُس کو عہدے سے برطرف کردیا جاتا ہے۔جیسا کہ شکیل خان بھی اُن میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی خیبرپختونخوا حکومت کے کرپشن کیخلاف آواز بلند کی لیکن اُنہیں عہدے سے ہٹادیا گیا۔اور اُلٹا علی امین گنڈا پور نے شکیل خان کو نکالنے کا یہ جوااز تراشنا کہ شکیل خان کو ہم نے اِس لئے نکالا کیونکہ اُس کے خلاف کرپشن چارجز تھے۔
اب صرف شکیل خان ہی نہیں بلکہ شکیل کان کی حمایت میں بولنےو الے عاطف خان کو بھی اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑگیا ہے۔تھریک انصاف میں اختلافات اِس قدر شدت اختیار کرچکے ہیں کہ علی امین گنڈاپور نے اراکین اسمبلی عاطف خان اور شیرعلی ارباب کوپارٹی عہدوں سے ہٹادیا۔عاطف خان پی ٹی آئی پشاور ریجن کے صدر اور شیرعلی ارباب ضلع پشاور کے صدر تھے۔عاطف خان کی جگہ ارباب عاصم کو پی ٹی آئی پشاور ریجن کا صدر مقرر کیا گیا ہے جبکہ عرفان سلیم کو پی ٹی آئی ضلع پشاور کا صدر اور شہاب ایڈووکیٹ کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق عاطف خان نے برطرف وزیر شکیل خان کے حق میں بیان دیا تھا جبکہ شیرعلی ارباب نے وزیراعلیٰ پر اعتماد سے متعلق اقرار نامے پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔اِس کا پس منظر دیکھیں تو گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہائوس پشاور میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے اجلاس میں علی امین گنڈاپور نے اراکین اسمبلی سے اقرار نامے پر دستخط لیے ، اقرار نامے پر دستخط وزیراعلیٰ، بانی پی ٹی آئی اور گڈ گورننس کمیٹی پر اعتماد سے متعلق تھے ۔رکن قومی اسمبلی شیرعلی ارباب نے اقرار نامے پر دستخط نہیں کئے تھے۔یعنی اُنہوں نے ایک طرح کا وزیر اعلی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور خیبرپختونخوا کے بعد پنجاب میں سیاسی عہدیداروں کی تبدیلی کے لئے کوشاں ہیں ۔پارٹی ذرائع کے مطابق حماد اظہر کو ہٹوا کر شیخ وقاص اکرم کو لانے کے لیے بانی پی ٹی آئی کو سفارش کی۔علی امین گنڈاپور نے حماد اظہر کو ہٹانے کے لئے متبادل کا نام پیش کیا ۔حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال کے اختلافات کے باعث پنجاب میں پارٹی میں اتفاق رائے میں مشکلات تھیں۔شیخ وقاص اکرم کو پنجاب کا صدر بنانے کے لئے علی امین اور شبلی فراز بانی پی ٹی آئی کو قائل کر رہے ہیں۔پارٹی ذرائع کے مطابق پنجاب میں متبادل عہدیداروں کو کے پی کے ہاؤس میں رہائش اور مکمل انتظامات کئے گئے ہیں۔ علی امین نے بانی پی ٹی کو پیغام میں کہا ہے کہ میاں اسلم اقبال پارٹی کو متحد نہ رکھ سکیں گے۔ حماد اظہر کے نام پر تحفظات ہیں اس لئے متبادل نام ہونا چاہیے ۔
اب جہاں نوبت یہاں تک آجائے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بیانات ایک دوسرے کے ساتھ میل نہ کھاتے ہوں ۔جب نوبت یہاں تک آجائے کہ صوبے کی وزارت اعلی بچانے کیلئے اپنے ہی وزراٗ سےا قرار ناموں پر دستخط کروائے جارہے ہوں۔اور جو مرضی کے مطابق نہ چلےاُنہیں عہدوں سے برطرف کردیا گیا ہو ایسے ماحول میں بیرسٹر گوہر سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ پارٹی میں کسی قسم کی کوئی سیاسی تقسیم نہیں ۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں