بلوچستان کے شیطانی گٹھ جوڑ کیخلاف فیصلہ کن آپریشن 

تحریر: احمد منصور 

Aug 28, 2024 | 15:01:PM
بلوچستان کے شیطانی گٹھ جوڑ کیخلاف فیصلہ کن آپریشن 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اقوام متحدہ ، یورپی یونین ، امریکہ، چین، روس، سعودی عرب اور ایران  نے   بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت کی ہے اور اس شیطانی گٹھ جوڑ سے نمٹنے میں ہر ممکن تعاون کی پیشکش بھی کر دی ہے، عالمی برادری کی طرف سے دہشت گردوں کی سخت مذمت کا یہ سلسلہ جاری ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی اشارے پر کئی عشروں سے جاری اس دہشت گردی کے ناسور کو اب جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے حوالے سے قومی اور عالمی دونوں سطحوں پر مکمل اتفاقِ رائے پیدا ہو گیا ہے۔ اور مستقبل قریب میں بلوچستان کی دہشت گرد گروپوں اور ان کے سہولت کاروں کی بڑے پیمانے پر صفائی کا عمل نئے انداز میں شروع ہو گا جس میں چین، امریکہ اور یورپی یونین سمیت دوست ممالک کی طرف سے فراہم کی گئی جدید ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہو گا۔

وزیراعظم شہباز شریف سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے مشترکہ طور پر ملاقات کی ہے،جس میں دونوں اہم شخصیات کی طرف سے وزیراعظم کو بلوچستان کی سکیورٹی و مجموعی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ وفاق اور بلوچستان دونوں مل کر اس معاملے میں کیا فیصلہ کن اقدامات کرنے جا رہے ہیں؟ 

 وزیراعظم شہباز شریف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دہشتگرد حملے بزدلانہ کارروائیاں تھیں جن کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، ہماری بہادر سکیورٹی فورسز نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دہشتگردوں کے عزائم کو ناکام بنایا ۔

وزیراعظم نے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات کی ہدایت کی، حکومت پاکستان کا دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے سخت ترین اقدامات کا عزم حالیہ اہم مالیاتی فیصلوں سے بھی ظاہر ہو رہا ہے جس کے تحت وفاقی کابینہ نے آپریشن عزم استحکام کیلئے 20 ارب روپے کی فوری منظوری دیدی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہوگیا؟ پی ٹی آئی کو فتنے کا نام کیوں دیا؟رانا ثناء اللہ نے اندر کی خبر دیدی

بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے حوالے سے بھارتی میڈیا نے مسلسل پروپیگنڈے کا طوفان اٹھائے رکھا ، ایسی ہی خصوصی دلچسپی بھارتی اخبارات اور نیوز چینلز مہ رنگ بلوچ کے دھرنوں اور دیگر سرگرمیوں کی کوریج کے حوالے سے بھی دکھاتے آئے ہیں، پاکستان میں بھی میڈیا کا ایک مخصوص طبقہ مہ رنگ بلوچ کی دہشت گردوں کے پولیٹیکل ونگ والی اصل حقیقت کو انسانی حقوق کی کارکن کے لبادے میں چھپائے کی کوشش کرتا ہے، اور بی ایل اے ، بی ایل ایف سمیت دہشتگرد تنظیموں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کی منفی کوریج کر کے اس شیطانی گٹھ جوڑ کی بالواسطہ سپورٹ کا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہے، اب جبکہ قومی اور عالمی سطح پر بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کو  فیصلہ کن آپریشن کے ذریعے کچلنے پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے، میڈیا کے مخصوص طبقے کو بی ایل اے ، بی ایل ایف جیسی دہشت گرد تنظیموں اور ان کے پولیٹیکل فیس بلوچ یکجہتی کمیٹی کیلئے بالواسطہ اور براہ راست پروپیگنڈہ مہم چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے اور ریاست کو اس حوالے سے اب دوٹوک پالیسی وضح کرنا ہو گی کہ دہشت گردوں کے سہولت کار اور ہمدرد بھی دہشت گرد ہیں اور ان سے بھی اسی طرح آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا جس طرح دیگر دہشتگرد تنظیموں اور خوارج سے نمٹا جا رہا ہے۔

بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں 23 بے گناہ مسافروں کا شناختی کارڈ دیکھ کر بہیمانہ قتل اور صوبے کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری کی کوشش کر کے دہشت گردوں نے اپنے عبرتناک انجام پر خود ہی مہر تصدیق ثبت کر دی ہے، حکومت و ریاست اب اس حتمی نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ اس شیطانی نیٹ ورک کو اب عام معافی جیسے مزید مواقع دینے کا وقت گزر گیا ہے، انہیں اب سختی سے کچل دینا ہی آخری حل ہے اور اب معاملات اسی رخ پر ایک فیصلہ کن آپریشن کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

بلوچستان میں دہشتگردی کے پیچھے وہ ملک سرگرم ہے جس نے پچھلے 75 سال سے پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا اور جسے سی پیک کی کامیابی سے سب سے زیادہ تکلیف ہے، وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے بھی اسی سازش کے تناظر میں کہا ہے کہ دہشت گرد چین اور پاکستان کے درمیان فاصلے پیدا کر کے دونوں دوست ملکوں کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں اور  چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت جاری ترقیاتی منصوبوں کو روکنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 23 کرنے کا فیصلہ

وزیر اعظم نے اب یہ بھی  واضح کر دیا ہے کہ حکومت دہشت گردی میں ملوث کسی بلوچ عسکریت پسند تنظیم سے اب کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔ یاد رہے کہ انسانی ہمدردی اور وسیع تر قومی ہم آہنگی کیلئے ریاست اور حکومت نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو قومی دھارے میں واپس آنے کے جو مواقع دیئے انہیں ریاست اور ریاستی اداروں کی کمزوری سمجھا گیا، اب چونکہ معاملہ enough is enough والا بن گیا ہے اس لیئے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ہمیشہ کیلئے کچل دینے کا آپشن ہی واحد حل کے حوالے سے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی کامل اتفاق رائے سامنے آیا ہے، یہ اتفاق رائے بھارت اور بھارتی لابی کی بھی مکمل ناکامی ہے جو پاکستان کو پچھواڑے سے گھیرنے کے بلند بانگ دعوے کرتی رہی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے میڈیا کا ایک حصہ اور گنتی کے کچھ سیاستدان، وکلا اور مخصوص این جی اوز کے لوگ بلوچستان میں دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی ایجنڈے اور سہولت کاری سے مکمل طور پر آگاہ ہونے کے باوجود اس دہشت گردی کے شیطانی نیٹ ورک کے فرنٹ فیس بلوچ یکجہتی کمیٹی اور مہ رنگ بلوچ کی حمایت میں کمر بستہ رہتے ہیں،  موسیٰ خیل سمیت بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر بلوچ یکجہتی کمیٹی اور مہ رنگ بلوچ کی خاموشی اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ یہ لوگ بی ایل اے اور بی ایل ایف سمیت بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کا ہی سافٹ فیس ہیں، اس لیئے انہیں بے گناہ مسافروں کے خون سے ہولی کھیلنے والے گھناؤنے واقعات کی مذمت کی بھی توفیق نہیں ہو رہی۔

مسنگ پرسنز کے حوالے سے خود ساختہ بیانیہ لانچ کر کے مہ رنگ بلوچ کی امیج بلڈنگ پر تعینات نام نہاد روشن خیال دانشوروں ، وکلا اور میڈیا پرسنز کی آنکھیں ڈالروں کی چمک نے چندھیا رکھی ہیں اس لیئے انہیں یہ سامنے کی حقیقت کبھی نظر نہیں آئے گی، ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کی چڑیلوں کو نیلم پریاں ثابت کرنے پر مامور ان سہولت کاروں کو بھی اپنا گھناؤنا دھندہ بند کرنے کا حتمی پیغام اب دے ہی دیا جانا چاہیئے۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر