بلدیاتی انتخابات سے متعلق انٹراکورٹ اپیل غیر موثر قرار
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق انٹراکورٹ اپیل غیر موثر قرار دیدی۔ عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن مناسب وقت میں انتخابی شیڈول کو یقینی بنائیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ الیکشن کیوں ملتوی ہوئے ؟ پہلے پی ٹی آئی کی حکومت الیکشن نہیں کروانا چاہتی تھی اب یہ حکومت نہیں کروا رہی، پورے شہر کا بیڑا غرق کر دیا گیا یے، حکومت نے جلدی میں نوٹیفکیشن میں اسلام آباد کی آبادی 205 ملین کر دی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دُگل نے عدالت کو بتایا کہ وہ کلیریکل مسٹیک تھی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ لوکل باڈیز کا فنڈ ایڈمنسٹریٹر اور سی ڈی اے کیوں استعمال کرے ؟ میں نے اپنے فیصلے میں بڑا واضح لکھا تھا کہ ایڈمنسٹریٹر یہ فنڈ استعمال نہیں کریگا، شہر کو یرغمال بنا دیا ہے، لوگوں کو پانی تک نہیں مل رہا، کیا حکومت بیان حلفی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ دے سکتی ہے ؟ کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ اتنے عرصے میں نئی حلقہ بندیاں کر کے الیکشن کروا دینگے؟ کیا وفاقی حکومت الیکشن کے شیڈول کے اعلان کے بعد یونین کونسلز کی تعداد بڑھا سکتی ہے؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسی معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے فیصلہ دیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے تو الیکشن کمیشن کو اپروچ ہی نہیں کیا، یہ تو اس عدالت نے الیکشن کمیشن کو بھیجا، جو لوگ بلا مقابلہ منتخب ہو چکے کیا ان کو بھی ڈی نوٹیفائی کر دیا جائے گا ؟ لوگوں نے تو خاندانوں میں کتنی لڑائیاں کر لی ہونگی، اب انتخاب ملتوی ہو گئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایک تو یہ بات بھی قانون سازوں کو سمجھ نہیں آ رہی، اگر پارلیمنٹ سے یہ معاملات ہینڈل نہیں ہوتے تو وہاں نہ بیٹھیں، ہم نے آرڈیننس فیکٹری تو نہیں بنانی نا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلدیاتی قانون سے متعلق ایک ترمیم پارلیمنٹ سے پاس ہو چکی ہے، صدر پاکستان کی جانب سے ترمیم پر دستخط ہونا باقی ہیں، میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب براہ راست ہونا ہے،125 یونین کونسلز ہونگی تو تمام لوگوں کو حق رائے دہی کا موقع ملے گا، اگر 101 یونین کونسلز پر میئر کا الیکشن ہو گا تو دیگر محروم رہ جائیں گے۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ چھ ماہ پہلے اسی حکومت نے یونین کونسلز کی تعداد بڑھائی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد تو بے آسرا شہر ہے، یہ پورا نظام شہریوں کیلئے ہے پارلیمنٹیرینز کیلئے نہیں، جو فنڈز لوکل گورنمنٹ کے پاس جانے ہیں وہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو مل جاتے ہیں، پارلیمنٹیرینز قانون سازی کریں گلیاں اور نالیاں نہ بناتے پھریں، پچھلی حکومت نے لوکل گورنمنٹ کو کوئی فنڈ نہیں دیا، اگر لوکل گورنمنٹ کو اختیار نہیں ملے گا تو وہ تو بےکار ہو جائے گی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کیا اس صورتحال میں یہ عدالت الیکشن کمیشن کو الیکشن کرانے کی ڈائریکشن دے سکتی ہے ؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالت الیکشن کمیشن سے پوچھ لے کہ کیا وہ الیکشن کروا سکتے ہیں ؟ ہم نے الیکشن کمیشن کے انتخاب موخر کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس وقت الیکشن کمیشن وفاقی حکومت کی وجہ سے الیکشن نہیں کروا رہا، ادارے تو اپنے کاموں میں لگے ہیں شہریوں کا تو کسی کو خیال نہیں، کیا الیکشن کمیشن بیان حلفی دے سکتا ہے کہ اتنے عرصے میں الیکشن کروا دینگے ؟۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب ملتوی کئے ہیں ؟ یہ انتخابات اس لئے ملتوی ہوئے ہوں کہ بلدیاتی انتخابات پہلے ہونے ہیں ؟ اس وقت قومی خزانے سے 50 ساٹھ کروڑ روپیہ خرچ ہو چکا ہے، اگر پارلیمنٹ کچھ دن بعد ایک نیا قانون بنانا شروع کر دے تو الیکشن پھر ملتوی ہو جائیں گے؟۔