راجہ جوگی ابھی پہاڑ سے نہیں اترا اور نا ہی اس کے کانوں میں چھید ہوا ہے۔ روداد نئے راجے کی ہو تو چھید اس کے کانوں میں نہیں بلکہ اس کی رعایا کے جسموں میں ہوتے ہیں۔ پانچ ندیاں اپنی حکمرانی کی دھاک آنے والی نسلوں پر بٹھائے بھی تو کیسے ؟ سوچ سیراب کرتے کرتے ان کی اپنی آنکھیں خشک ہو گئی ہیں۔ اس بار کہانی کوئی سولہویں صدی کے اوائل کی ہے۔ ڈھولچی خود ہی اپنی کرامت کا اعلان کرتا پھر رہا ہے۔
تا حد نگاہ کسی بھی بابر کی جرات نہیں کہ وہ قاصد بن کر کوئی نیا پیغام لا سکے۔ حضرت شرف الدین کی درگاہ سے کچھ دور ایک مرقد بھی اپنی سلطنت کی داستان سنانے پر بضد ہے مگر سنتا کون؟ درویشوں کی بسائی بستیوں میں حاکموں کی کہانیاں کبھی نہیں سنائی جاتیں۔ یہ شاید عوامی تاریخ میں عوام کی جانب سے لیا جانے والا وہ بدلہ ہے جسے کسی کی آبیاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دہلی کی سلطنت کی کچھ باقیات مغلیہ عہد سے ہوتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی سے رنگے جانےکے بعد اکیسویں صدی میں اچانک وارد نہیں ہوتی۔
ایک اساطیر ہے جسے زندہ رکھنے کے لیے دریائے چناب کے کنارے ہمارے سروں پر کڑے چڑھائے گئے۔ بار آوری کے نمائندے نے اساطیری ناگ کے چڑھاوے کو اور شکلوں میں آشکار کیا۔ دماغ کی کھڑکیاں بند کر کے بھیس بدلے درویشوں کی درگاہوں پر ایڑیاں رگڑیں تو سر چھوٹے ہوئے۔ داستان سنانے والے بتاتے ہیں کہ بات اتنی بھی گھمبیر نہیں۔ ذاتی لغزشوں نے پانی پت کو سرخ کیا تو حملہ آور نے دوسرے حملہ آور کا چوغہ پہن کر تین صدیوں سے زائد ہم پر حکمرانی کی۔ یونانی سکندر کے نقالی میں نام تو رکھے گئے مگر کہانی لکھنے والا یہ بھول گیا کہ راستے میں کئی پورس بھی آتے ہیں۔
ہماری کھوپڑیوں کے میناروں پر قہقہے لگانے والوں کی شکلیں ہر دوآبے پر بدلتی ضرور ہیں مگر ان کے پیچھے سوچ ایک ہی کارفرما ہوتی ہے۔ کہانی چندرا بھاگا کی ہے۔ ہمیں ابھی اپنے نتھنوں میں نکیل ڈال کر خود کو نچانا ہے۔ ہو سکتا ہے ہمارے اندر کا ارتقائی انسان کسی سائنسی مفروضے کی نظر ہو جائے۔ بندر اور ریچھ نچاتے نچاتے جب یہ آدم زاد انسان کو نچانے کے عہد میں داخل ہوتا ہےتو سوہنی مہینوال اپنی کہانی سناتے ہیں۔ یہ سرزمین اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی انہی حملہ آوروں کی باقیات کی نذر کیوں ہے یا یہ صرف ایک وہم ہے ؟ اور یہ سارے کا سارا وہم اس ابلاغ کے دور کی دین ہے۔ ہم نے تو سنا ہے کہ اس سرزمین پر صوفیا کے درس کے پھیلاؤ کے لیے ادارے بنائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف اس کا اعلان کرنے والے تاریخی تناظر میں ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتے ہیں۔
کوئی تو اس زمین سے پھوٹنے والے عناصرہوں گے جو ان کو نرغے میں لے کر ہمارے ہی عہد میں عوامی تاریخ لکھیں گے۔ کیا ثقافت ان کے گھر کی باندی ہے کہ وہ عرصہ دراز تک خاموش رہے گی ؟ ایسا ممکن نہیں ان حملہ آور کی باقیات کو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کیکر لڑ جائیں اور ہمارے اذہان کو اسی دھرتی کے دئیے زہر سے تریاق میسر آئے۔ ثقافت! ہمیں درویشوں کی سرزمین پر تیری ندیوں کے جھرنوں میں سروں پر کڑے چڑھانے والوں اور زبانیں کاٹنے والوں نے گھیر رکھا ہے تو حلاج کی مِثل اپنے دریاؤں کے پانی میں گھُل جا۔ جہاں ہر خوشہ تیری ازلی ثباتی کا قصہ بیان کرے۔
راجاؤں کی کہانیوں میں حملہ آور بابر کی کہانی تو ہو سکتی ہے مگر کسی نائب کی نا ہی تو کوئی کہانی ہوتی ہے اور نا ہی وہ صاحب ذیشان ہوتا ہے۔ دھرتی کے نام و نہاد لگان وصول کرنے والے ابلاغی لودھی سورماؤ! تمہاری سولہویں صدی کی کہانیوں کو سناتے ہوئے تمہارے جعلی، متقی اور درباری تو خوف زدہ ہوں گے مگر درجہ چہارم کی عوام کے اس انبوہ سے تمہاری نفرت نے ہر ذی روح کو گریڈ 20 کا کرتے ہوئے تمہارے چہروں سے نقاب کھینچ لیا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے تم درجہ چہارم کے سیکرٹری/ معتمد ہو۔