سیاسی دہشت گردی سے تاج و تخت کا حصول اور  "ویٹو پاور" 

از:احمد منصور 

Dec 28, 2024 | 15:20:PM
سیاسی دہشت گردی سے تاج و تخت کا حصول اور  
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

پاکستان میں دلچسپ تماشا لگا ہے، یار لوگ بار بار  سیاسی دہشت گردی کے ذریعے تاج و تخت کے حصول کی نئی کوشش کرتے ہیں لیکن جب فیصلے کا وقت آتا ہے مقتدر قوتیں "ویٹو" کر دیتی ہیں اور معاملہ "پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا" والا بن جاتا ہے۔ 

انتشاری ٹولہ کئی ہفتے یا کئی مہینے لگا کر ایک بیانیہ تراشتا ہے، اپنے سحر میں گرفتار گمراہ نوجوانوں کو ٹرک کی ایک نئی بتی کے پیچھے لگاتا ہے اور اس خود فریبی کا شکار ہو جاتا ہے کہ اب ان کے منصوبے کے مطابق "تبدیلی" کا ماحول بن گیا ہے، لیکن پاکستانی سیاست کے یہ شیخ چلی ابھی تک اس قانون فطرت کو نہیں سمجھ سکے کہ تاج و تخت کے فیصلے صرف باتوں اور بیانیئے کی بنیاد پر نہیں ہوتے، فیصلہ کن عنصر قوت و طاقت ہے، شاعر مشرق کی مشہور نظم "اہل مصر سے" میں اس قانون فطرت کی عکاسی کرتے ہوئے دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے، آپ نے فرمایا 

خود ابوالہول نے یہ نکتہ سکھایا مجھ کو
وہ ابوالہول کہ ہے صاحب اسرار قدیم

دفعتہً جس سے بدل جاتی ہے تقدیر امم
ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم

ہر زمانے میں دگر گوں ہے طبیعت اس کی
کبھی شمشیر محمد ہے، کبھی چوب کلیم

دنیا میں تاج و تخت کے فیصلے کرنے والی یہ قوت ہمیں کبھی اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے 5 مستقل رکن ممالک کی "ویٹو پاور" کی صورت میں نظر آتی ہے تو کبھی ہمسایہ ملک ایران میں سپریم لیڈر کے فیصلہ کن کردار کی شکل میں سامنے آ کھڑی ہوتی ہے، اور کبھی دنیا کے مختلف ممالک میں ڈیپ اسٹیبلشمنٹ کی صورت میں جلوہ گر ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ تاریخ و سیاسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہم دیکھتے ہیں کہ قومی و عالمی سطح پر راج نیتی کے فیصلے صدیوں سے اسی قوت ہی کی بنیاد میں ہوتے آئے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں، لاہور کے صوفی شاعر نے یہ بنیادی نکتہ مزید مختصر الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ 
کہے حسین فقیر سائیں دا، تخت نہ ملدے منگے​

پاکستان میں انتشاری ٹولے کی طرف سے کبھی 9 مئی تو کبھی 26 نومبر برپا کر کے تاج و تخت پر قبضے کی جو کوششیں بلکہ سازشیں کی گئیں ان کی ناکامی سے یار لوگوں کو سمجھ جانا چاہیئے تھا کہ ان کا طریقہ غیر فطری ہے لیکن کسی کنویں کے مینڈک کی طرح یہ انتشاری ٹولہ ایک مخصوص دائرے سے باہر دیکھنے کی صلاحیت سے ہی شاید محروم ہے، حالیہ چند ہفتوں میں انہوں نے ایک بار پھر پورا زور لگا کر ایک بیانیہ تراشا، چائے کی پیالی میں اک نیا طوفان اٹھایا لیکن جب "ویٹو پاور" حرکت میں آئی تو کئی ہفتے تک پکائی جانے والی یہ ہنڈیا ایک ڈیڑھ گھنٹے کی پریس کانفرنس کی مار نکلی اور "سوسںنار کی ایک لوہار کی" والا معاملہ بن گیا

 رواں برس نومبر میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے پُرتشدد احتجاج کو پاک فوج نے اب باضابطہ طور پر ’"سیاسی دہشتگردی" قرار دے کر اس غبارے سے ہوا نکال دی ہے جسے کئی ہفتوں سے پورا زور لگا کر پھلایا جا رہا تھا۔ 

جمعے کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر اس کے احتجاج کو "نومبر سازش" قرار دیا اور کہا کہ "اس کے پیچھے سیاسی دہشتگردی کی سوچ تھی۔"

اس پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان نے ملک بھر کی سکیورٹی صورتحال، سکیورٹی آپریشنز، سرحدی صورتحال اور صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سیاسی سوالات کے بھی جوابات دیے۔

مئی کے پُرتشدد احتجاج کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ثبوت اور شواہد کے مطابق وہ تمام لوگ جو ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے ان کو سزائیں سنانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے بارے میں جو افواجِ پاکستان کا نقطہ نظر ہے وہ انتہائی واضح ہے۔ یہ افواجِ پاکستان کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ عوام پاکستان کا مقدمہ ہے۔ اگر کوئی مسلح گروہ اور پُرتشدد گروہ اپنی مرضی اور اپنی سوچ مسلط کرنا چاہے اور اسے آئین کے مطابق نہ روکا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ ہم اس معاشرے کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟

لیفٹینٹ جنرل احمد شریف چودھری کا مزید کہنا تھا کہ انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں بھی جو 9 مئی سے متعلق مقدمات ہیں انھیں اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے اور اس سے جڑے منصوبہ سازوں اور گھناؤنے کرداروں کو بھی سزا ملنی چاہیے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس "منفی سیاست" کو گنجائش "فیک نیوز"  کے سبب مل رہی ہے اور اس کی واضح مثال 9 مئی کو "فالس فلیگ آپریشن" قرار دینا یا اس کا ذمہ دار فوج اور دیگر اداروں کو قرار دینا ہے۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ نومبر سازش کے پیچھے سیاسی دہشت گردی کی سوچ تھی۔ 

پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے سوال کے دوران کہا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان کی افغان پالیسی پر تنقید کی ہے اور کہا ہے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔

اس سوال پر ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان گذشتہ دو برسوں سے افغان عبوری حکومت سے بات چیت کر رہا ہے اور انھیں براہ راست بھی کہا گیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے سے روکیں اور دوست ممالک کے ذریعے بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ 

انھوں نے سابق حکومت اور عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ ’جب 2021 میں دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی، اس وقت بات چیت کے ذریعے کس نے انھیں دوبارہ آباد کروایا؟ اس سب کے نتائج ہم سب بھگت رہے ہیں۔ ہمیں اس سے یہ بھی پتا چل رہا ہے کہ 2021 میں کس کی ضد تھی کہ ان (عسکریت پسندوں) سے بات کی جائے اور اس ضد کی قیمت پاکستان اور پورا خیبر پختونخوا ادا کر رہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ملٹری کورٹس کو اپنا وکیل کرنے، اپنے شواہد پیش کرنے، گواہ لانے، جراح کرنے سمیت تمام قانونی حقوق مہیا کیے جاتے ہیں اور اگر مجرموں کو سزا ہوجائے تو نہ صرف کورٹ اپیل میں آرمی چیف بلکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی انہیں اپیل کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملٹری کورٹ کے فیصلے بھی سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سنائے گئے ہیں، جب 9 مئی کے واقعات کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ملتا تو ملٹری کورٹ کے طریقہ کار کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ملٹری کورٹس پر بات کرنے والے کل اس کے سب سے بڑے داعی تھے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کچھ عرصے پہلے یہ بیانیہ بنایا جارہا تھا کہ 9 مئی کو احتجاج کرنے والے انتشاری اصل میں ایجنسیوں کے پلانٹ کردہ لوگ ہیں اور فوج نے گہری سازش کے تحت خود یہ حملے کروائے ہیں، پھر اگر ہم نے اپنی ایجنسیوں کے بندوں کو اپنے قانون کے تحت سزائیں دے دی ہیں تو ان انتشاریوں کو خوش ہونا چاہیے، لیکن اب وہ پریشان ہیں کیونکہ اپنے اقتدار کی ہوس میں وہ منافقت اور فریب کی آخری حدوں کو عبور کرچکے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں میں زیر سماعت 9 مئی کے مقدمات کو بھی اب انجام تک پہنچنا چاہیے، 

ترجمان پاک فوج کا یہ کہنا کہ   اگر کوئی فریق اپنی گمراہ کن سوچ اور اپنی مرضی مسلط کرنے پر تلا ہو تو اس سے کیا بات کریں؟ ایک واضح اشارہ ہے کہ اب فتنہ خارجی ہو یا سیاسی اس سے بات چیت نہیں کی جائے گی بلکہ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ کیونکہ جو لوگ علم اور منطق کی زبان نہیں سمجھتے تو پھر ان سے معاملات طے کرنے کیلئے "ابوالہول" کے مشورے پر عمل کیا جاتا یے،

 ڈی جی آئی ایس پی آر کا اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہنا کہ اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ و جدل، کوئی غزوات اور مہمات نہ ہوتیں، بھی واضح پیغام ہے کہ دہشت گردی عسکری ہو یا سیاسی، اس سے فیصلہ کن انداز میں نمٹنے کیلئے اب "ویٹو پاور" کے استعمال کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر