عمران خان کو قتل کیے جانے کی خبریں گرم ہیں سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی جاری ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ انہیں کب، کہاں اور کیسے قتل کیا جائے گا ؟ اس حوالے سے اب تک کیا کچھ کیا جا چکا ہے اور کیا کچھ کیا جانا باقی ہے یہی ہمارا آج کا موضوع ہے ۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پر وزیر آباد حملے سے بھی پہلے جن دنوں وہ اپنی حکومت کے گرائے جانے کے اختجاجی جلسوں میں مصروف تھے انہی دنوں پہلی مرتبہ عمران خان کے قتل کی سازش کا بیانیہ خود چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ میرے قتل کی سازش کی جا رہی ہے ایسا کیمیکل منگوایا گیا ہے جسے استعمال کر کے کسی بھی شخص کو ہارٹ اٹیک کرایا جاسکتا ہے یہ کیمکل ضروری نہیں ہے کہ کھانے میں شامل کیا جائے بس جسم کے کسی حصے سے یہ کیمکل چھو جائے تو انسان کی موت واقعہ ہوجاتی ہے، عمران خان نے اس سازش کو ڈرٹی ہیری سے منسوب کیا جسے وہ اپنی حکومت کے جانے کا بھی ذمہ دار قرار دیتے تھے یہ پلان اے تھا، عمران خان کے اس بیانئے کو اس وقت مزید تقویت ملی جب معروف صحافی حامد میر نے بھی ایسے کیمیکل کی موجودگی کی تصدیق کی کہ اگر یہ کیمیکل جوتے میں لگا دیا جائے تو بھی انسان کا بلڈ پریشر اتنا ہائی ہوسکتا ہے کہ اُسے ہارٹ اٹیک ہوجائے یوں عمران خان کے چاہنے والوں نے اس بیانیہ کو لیکر سوشل میڈیا پر دھما چوکڑی مچائی اور ایسی ایسی داستانیں گھڑی کہ رہے اللہ کانام، پورا پاکستان جیمز بانڈ کی فلم کا سیٹ معلوم ہونے لگا۔
خیر پلان اے کبھی تھا ہی نہیں اس لیے اس پر عملدرآمد کہاں ہونا تھا، عمران خان بچ گئے لیکن کسی ایک ادارے یا سیاسی جماعت کو اس بات کی جرات نہ ہوائی کہ وہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے پوچھتا کہ انہیں اس سازشی بیانئیے کا کس نے بتایا، کون تھا جو آپ تک ایسی بے بنیاد باتیں پہنچا رہا تھا، ہماری عدلیہ نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا، حالانکہ یہ ایک حساس معاملہ تھا جس کی تحقیقات ہونا ضروری تھیں۔
اس ہارٹ اٹیک کیمیکل کا دور ختم ہوا تو عمران خان نے اپنے جلسوں میں اعلان کیا کہ انہیں ایجنسی کے اندر سے یہ اطلاعات ملی ہیں کہ پلان اے کی ناکامی کے بعد پلان بی پر عملدرآمد کیا جائے گا، مجھے مروانے اور راستے سے ہٹانے کے لیے افغانستان سے بندے حاصل کیے گئے ہیں، مذیبی جنونیت کے نام پر کسی سے مروایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ مذہبی جنونی نے مار دیا ہے اس کے بعد ہر جلسے میں یہ کہا جانے لگا کہ نواز شریف نے میرے قتل کی سازش بنائی ہے یہاں تک کہ عمران خان پر ہوئے حملے سے 24 گھنٹے پہلے سینیٹر اعجاز چودھری نے انکشاف کر دیا کہ وزیر آباد میں عمران خان پر حملہ ہوگا اور ایسا ہی ہوگیا شور مچایا گیا کہ یہ مسلم لیگ ن کا کارکن ہے، کبھی پکڑے جانے والے نوید کے تانے بانے ملکی ایجنسیوں سے ملائے گئے اور یوں ایک ایسا حملہ جس میں گولیاں جیبوں اور کپڑوں سے نکلیں اُس کو عمران خان کے قتل کی سازش قرار دیا جانے لگا، اگر مقامی پولیس فوری نوید کا بیان ریکارڈ نہ کرتی اور اس کی زندگی کو لاحق خطرات سے نہ بچاتی تو نوید عمران خان کے گارڈ کی گولی سے تو بچ گیا جس کا نشانہ ایک پی ٹی آئی ورکر ہی بنا، شائد لوگوں کے غیض و غضب سے نہ بچ سکتا معاملہ اب کورٹ میں ہے جہاں نوید کا وکیل میاں داود چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے پولی گراف ٹیسٹ کا مطالبہ کر رہا ہے اور اگر عمران خان سچے ہیں تو انہیں ضرور ٹیسٹ کرانا چاہیے ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔
سازش کا تیسرا بیانیہ اب بنایا گیا ہے جسے خود عمران خان نے پلان سی کا نام دیا ہے اُن کے مطابق "ایجنسی اور آصف علی زرداری نے اُنہیں قتل کرانے کے لیے دہشتگردوں کو خریدا ہے جو اُنہیں قتل کر دیں گے انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ اگر میں قتل کر دیا جاؤں تو آپ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو نہ چھوڑنا " یعنی آصف علی زرداری کی جان کو بھی خطعرہ لاحق کر دیا۔
یہ ایسا الزام ہے جس کی تحقیقات ہونا ضروری ہے عمران خان سے پہلے شیخ رشید بھی ایسا ہی بیان دے چکے ہیں اس لیے سپریم کورٹ آف پاکستان ، چیف آف آرمی سٹاف اور وزیر اعظم شہباز شریف اس الزام کا نوٹس لیں، عمران خان صاحب کو فوری حفاظتی تحویل میں لے لیا جائے اور نوید کے وکیل میاں داود کے مطالبے پر عمل کرتے ہوئے عمران خان صاحب کا پولی گرافک ٹیسٹ کرلیا جائے، اس ٹیسٹ میں ایک ہی مرتبہ اُن سے رجیم چینج اور قتل کی سازشوں کے مرکزی کرداروں کو سامنے لایا جاسکتا ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم رہے گا۔ قوم اس وقت اعلیٰ عدلیہ کی جانب دیکھ رہی ہے جو فوری طور پر ایک بڑی پارٹی کے بانی اور لیڈر کی زندگی بچانے کے لیے حفاظتی تحویل کا آرڈر جاری کریں اور پولی گراف ٹیسٹ کے ذریعے جھوٹ سچ کو ثابت کریں تاکہ سیاسی ہیجان میں کمی لائی جاسکے۔