امریکا نے افغانستان کی صورتحال بہت خراب کردی۔۔پاکستان کسی محاذ آرائی کامتحمل نہیں ہوسکتا۔۔عمران خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغان جنگ سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں، مؤقف بالکل واضح ہے۔پاکستان کسی محاذ آرائی کامتحمل نہیں ہوسکتا، کسی تنازع کا حصہ بھی نہیں بن سکتے، امریکا افغان مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام رہا۔ امریکا کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا، پاکستان امن میں شراکت دار ہے۔ امریکا نے افغانستان میں صورتحال بہت خراب کردی ۔
عمران خان نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکا کو افغانستان میں فوجی حل تلاش کرنے کی کوششوں پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایسا کبھی تھا ہی نہیں۔انہوں نے کہاکہ مجھ جیسے لوگ جو کہتے رہے کہ فوجی حل ممکن نہیں، جو افغانستان کی تاریخ جانتے ہیں، ہمیں امریکا مخالف کہا گیا، مجھے طالبان خان کہا جاتا تھا۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جب امریکا کو یہ احساس ہوا کہ افغانستان میں کوئی فوجی حل نہیں ہے بدقسمتی سے امریکی اور شمالی اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن فورسز نیٹو، سودے بازی کی پوزیشن کھو چکے تھے۔انہوں نے کہاکہ امریکا کو بہت پہلے سیاسی تصفیے کا انتخاب کرنا چاہئے تھا جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب نیٹو فوجی موجود تھے۔میرے خیال میں امریکا افغانستان میں بُرے طریقے سے پھنس چکا ہے، امریکا نے پہلے تنازع کو فوجی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی، افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، افغان تاریخ کا ادارک رکھنے والے بھی کہتے رہے یہ کوئی حل نہیں، جب میں نے کہا افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں تو مجھے طالبان خان کہا گیا، میں نہیں جانتا افغان جنگ کا کیا مقصد تھا۔ جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو خودکش حملے ہو رہے تھے، خود کش حملوں سے تجارت اور سیاحت کے شعبے متاثر ہوئے، اب ہم کسی تصادم کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ پاک امریکا تعلقات میں ہمیشہ کوئی رخنہ رہا ہے، امریکا نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہم آپ کو امداد دے رہے ہیں، پاکستان کو اس جنگ میں استعمال کیا گیا، پاکستان یہ محسوس کرتا تھا کہ ہمارا اس جنگ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، کوئی ایسا ملک ہے جس نے کسی دوسرے ملک کے لئے 70 ہزار جاںیں دی ہوں، پاکستان سمجھتا ہے ہم امریکا کی جنگ لڑ کر اپنی معیشت کا نقصان کر رہے ہیں، جو امریکی امداد ہے وہ ہمارے نقصان سے کہیں زیادہ کم ہے، افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا الزام بھی ہمیں دیا جا رہا ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے امریکا اور نیٹو افواج مذاکرات کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں، جب ڈیڑھ لاکھ فورسز تھیں تب افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالا جانا چاہیے تھا، امریکا نے افغانستان سے انخلا کی تاریخ دی تو طالبان سمجھے وہ جیت چکے ہیں، اب طالبان کو سیاسی حل کیلئے مجبور کرنا مشکل ہے وہ خود کو فاتح سمجھتے ہیں، جب اشرف غنی صدارتی الیکشن لڑ رہے تھے اس وقت امریکا اور طالبان کی بات چیت ہو رہی تھی، پاکستان نے امریکا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا، جس کا اعتراف امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کیا۔عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں ایسی حکومت ہونی چاہیے جس میں تمام فریق شامل ہوں، افغانستان میں طویل خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان پر دوہرے اثرات کا خدشہ ہے، 30 لاکھ افغان مہاجرین پہلے سے موجود ہیں اور بھی آجائیں گے، پاکستان کی معیشت مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، خانہ جنگی پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے یہاں بھی کثیر تعداد میں پشتون ہیں، پشتون اس خانہ جنگی کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن ہم ایسا کبھی نہیں چاہیں گے، اس جنگ سے پہلے القاعدہ افغانستان میں تھی، پاکستان میں کوئی عسکریت پسند طالبان نہیں تھے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، پاکستان نے امریکا کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہو کر اپنی تباہی کی، جس جنگ سے ہمارا تعلق نہیں تھا اس میں 70 ہزار پاکستانی شہید ہوئے، اس جنگ میں ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔