ڈار یار : تنگ نہ کر

تحریر: نوید چودھری

Jul 28, 2023 | 13:05:PM

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام نگران وزیر اعظم کے طور پر سامنے آنے کا معاملہ محض افواہ نہیں، پاکستان جیسے ملک میں جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے وہاں کسی بھی خبر پر زیادہ حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ،اس کے باوجود بہت سے لوگ اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ اسحاق ڈار کے امیدوار ہونے پر ہنسا جائے یا رویا جائے ، ان کی سیاسی وابستگی تو بہت بڑا مسئلہ ہے ہی، اس کے ساتھ شہباز شریف کے دور حکومت میں ان کی بطور وزیر خزانہ کارکردگی پر بھی بہت بڑا سوال لگ چکا ہے،آئی ایم ایف نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ موجودہ اور پچھلے ادوار حکومت میں عالمی مالیاتی ادارے کا پروگرام ڈی ٹریک کرنے کی ذمہ داری اسحاق ڈار اور شوکت ترین پر عائد ہوتی ہے،نہ ماننے والے بے شک تسلیم نہ کریں مگر یہ اٹل حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہی اس لیے ہوئی تھی کہ ملک  ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا تھا۔

ایسے میں کہ جب آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ ڈبل گیم کررہے تھے، عدلیہ کھل کر پی ٹی آئی کے ساتھ جم کر اتحادی جماعتوں کی حکومت کے خلاف کھڑی تھی ، مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ کے طور پر نہایت احتیاط سے معاملات آگے لے کر چل رہے تھے،عمران حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر بچھائی گئی معاشی بارودی سرنگوں کو اپنی ساکھ دائو پر لگا کر ناکارہ بنا رہے تھے جب کبھی بھی کوئی دھماکہ ہوتا تو سارا الزام ان پر ہی آرہا تھا ،شہباز حکومت مختلف وجوہات کی بنا پر پی ٹی آئی کے پروپیگنڈا کا سامنا کرنے میں بھی ناکام تھی، عمران حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنے کے بعد دوست ممالک سمیت پوری دنیا ریاست پاکستان پر اعتبار کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہی تھی ، مفتاح اسماعیل جان چکے تھے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کیے بغیر معاشی تباہی سے بچا نہیں جاسکتا،پتہ نہیں کس شوق میں اسحاق ڈار میدان میں کود پڑے اور وزیر خزانہ بنتے ہی آئی ایم ایف کو للکارنا شروع کردیا ۔

ضرور پڑھیں:اینٹی اسٹیبلشمنٹ یا اپنی اسٹیبلشمنٹ   

یہ دعویٰ کیا گیا کہ معاہدہ ہوگیا تو ٹھیک ورنہ ہمارے پاس پلان بی بھی موجود ہے ، وقت نے ثابت کیا کہ بی پلان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا ہوسکتا ہے کہ اس حوالے سے کوئی تصوراتی خاکہ تیار کیا گیا ہو، آئی ایم ایف سے معاہدے کی راہ میں امریکہ پہلے ہی رکاوٹ بنا ہوا تھا ، اسے غصہ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت ختم ہوتے ہی سی پیک پر کام کی رفتار کو تیز کردیا گیا ہے جو پہلے تقریباًبند ہوچکا تھا ، ادھر چین کی حکومت کو شدید تحفظات تھے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال پر قابو نہیں پارہی ، چین کی جانب سے مدد تو کی گئی لیکن سی پیک کے متعلق ماضی قریب میں ریاست پاکستان کی متضاد پا لیسیوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا، سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارت اور قطر کو بھی تحفظات تھے، بہر حال اسٹیبلشمنٹ کی نئی قیادت دنیا کو باور کرانے میں کامیاب ہوگئی کہ مستقبل میں معاشی حوالے سے ماضی والی غلطیاں نہیں دھرائی جائیں گی ۔

امریکہ نے بھی بھانپ لیا کہ اس کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کیے جائیں گے اس طرح اس کا دباؤ بھی کم ہوگیا ، ان تمام عوامل کے نتیجے میں پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا اور ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا لیکن یہ بات بھی درست کہ اسحاق ڈار زمینی حقائق کا صحیح اندازہ لگائے بغیر جس طریقے سے   آئی ایم ایف سے ڈیل کرنے کی کوشش کرتے رہے اس سے نہ صرف وقت ضائع ہوا بلکہ پاکستان کو معاشی حوالے سے زیادہ نقصان پہنچا ، یہ بھی سچ ہے کہ نواز شریف کے دور حکومت میں اسحاق ڈار نے بطور وزیر خزانہ عمدہ کارکرگی کا مظاہرہ کیا ، آئی ایم ایف سے معاہدے کرتے ہوئے شرائط نرم کروائیں اور ملک کی معاشی سمت درست کی لیکن یہ سب وقت وقت کی بات ہے ، آج عالم یہ ہے کہ لوگ مہنگائی اور اسحاق ڈار کو لازم ملزوم قرار دے رہے ہیں، آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے سے باہر جانا ممکن نہیں اور اسی صورتحال میں عوام کو ریلیف دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، آئیڈیل حل تو یہی ہے کہ آئین کی روح کے مطابق غیر جانبدار افراد پر مشتمل نگران سیٹ اپ قائم کرکے مقررہ مدت میں نئے انتخابات کرائے جائیں ، انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ غیر متنازعہ بنانے کی کوشش کی جائے، یہ تو طے ہے کہ اگلے سیاسی منظر نامے میں عمران خان والی پی ٹی آئی کیلئے زیادہ گنجائش نہیں ۔

یہ بھی پڑھیں:اگلے وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے؟

ایسے میں اگر مراد سعید کو نگران وزیر اعظم بنا کر انتخابات کرائے گئے تو عمران خان اور ان کے ساتھی اس کے نتائج کو بھی تسلیم نہیں کریں گے لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ شریف خاندان کے سمدھی کی سربراہی میں نگران حکومت قائم کردی جائے ، ایسا ہوا تو ملک کے اندر اور باہر کیا تاثر جائے گا ، ہم رائے ہی دے سکتے ہیں فیصلہ سازوں نے ذہن بنا لیا تو پھر کوئی کیا کرسکتا ہے،یہ بات درست ہے کہ ملک کو درپیش سنگین مالی مشکلات کے سبب نگران سیٹ میں اقتصادی ماہرین کو ذمہ داریاں سونپنا زیادہ مناسب ہوگا مگر اسحاق ڈار ہی کیوں ؟ جس طرح کے معاشی ماہرین نگران سیٹ اپ کیلئے درکار ہوتے ہیں ان کی لائن لگی ہوئی ہے، یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے مسلم لیگ ن نے عوامی سیاست سے گریز کرتے ہوئے خود کو اسٹیبلشمنٹ کے سپرد کردیا ہے ، اس کے باجود اسحاق ڈار کی جانب سے نگران وزرات عظمیٰ کا امیدوار ہونے کے ڈھکے چھپے اعتراف کے بعد خود ن لیگ کے اندر سے بھی مخالفانہ ردعمل آرہا ہے، اس کے باجود اسحاق ڈار نگران وزیر اعظم بن گئے تو خصوصاًلاہور میں رکشوں کے پیچھے لکھا جانے والا مشہور و مقبول فقرہ “ پپو یار تنگ نہ کر “ —-“ ڈار یار تنگ نہ کر” میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر

مزیدخبریں